(آیت 217) ➊ ”قِتَالٍ فِيْهِ“ یہ ”الشَّهْرِ الْحَرَامِ“ سے بدل اشتمال ہے۔ ”قِتَالٌ“ مبتدا اور”كَبِيْرٌ“ خبر ہے۔ ”صَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ مبتدا ہے، ”كُفْرٌۢ بِهٖ“ اور ”اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ“ کا اس پر عطف ہے اور ان سب کی خبر ”اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ“ ہے اور ”الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ“ کا عطف ”سَبِيْلِ اللّٰهِ“ پر ہے اور ”كُفْرٌۢ بِهٖ“ میں ”بِهٖ“ کی ضمیر ”سَبِيْلِ اللّٰهِ“ میں مذکور لفظ ”اللّٰهِ“ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور ”الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ“ کو پہلے لانے کے بجائے ”كُفْرٌۢ بِهٖ“ کو پہلے لانے میں یہ حکمت ہے کہ سبیل اللہ (اسلام) سے روکنے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر مسجد حرام سے روکنے سے بڑا جرم ہے، اس لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔
➋ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، عہد جاہلیت ہی سے ان میں لوٹ مار اور خون ریزی حرام سمجھی جاتی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ ۲ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں فوج کا ایک دستہ جہاد کے لیے روانہ کیا۔ انھوں نے کافروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا، جس سے ان کا ایک آدمی مارا گیا اور بعض کو مال سمیت گرفتار کرکے مدینہ لے آئے۔ یہ واقعہ رجب ۲ھ میں پیش آیا۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم نے رجب میں جنگ کرکے اس حرمت کو توڑا ہے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ماہ حرام میں جنگ کرنا اگرچہ واقعی بہت بڑا ہے، مگر تم تو اس سے بھی بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہو (جو یہ ہیں، اللہ کے راستے یعنی اسلام سے روکنا، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا، مسجد حرام یعنی حرم مکہ میں رہنے والے صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے نکالنا، اس کے علاوہ فتنہ یعنی کفر و شرک پر مسلمانوں کو مجبور کرنے کے لیے عذاب میں مبتلا کرنا قتل سے بھی بڑا جرم ہے)۔ لہٰذا اگر مسلمانوں نے تلورا اٹھالی ہے تو قابل مؤاخذہ نہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی)
➌ حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی حرمت اکثر فقہاء کے نزدیک سورۂ توبہ کی آیت: «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ» [التوبۃ: ۵] کے ساتھ منسوخ ہو چکی ہے (الجصاص) مگر سورۂ توبہ ہی کی آیت: «اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا» [ التوبۃ: ۳۶] اس آیت میں ہے: «مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ»”ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔“ پھر فرمایا: «فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً»[ التوبۃ: ۳۶]”سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور کافروں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں۔“ اور «اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ»[ البقرۃ: ۱۹۴]” حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں لڑنے کی اجازت کا سبب یہ ہے کہ کفار چونکہ ان مہینوں میں بھی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں، اس لیے مسلمانوں پر بھی ان مہینوں میں نہ لڑنے کی کوئی پابندی نہیں۔ اگر فی الواقع کفار ان مہینوں کی حرمت کی پاس داری کریں تو مسلمانوں کو بھی کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری حج کے خطبہ میں بھی ان مہینوں کی حرمت کا ذکر فرمایا۔ عطاء اور بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے اور یہی درست معلوم ہوتا ہے۔
➍ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے آیت: «وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ»[ البقرۃ: ۱۹۱]
➎ ”اِنِ اسْتَطَاعُوْا:“ یہ اس بات کی بشارت ہے کہ کفار بے شمار لڑائیوں کے باوجود کبھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کہ تمام مسلمانوں کو دین سے مرتد کر دیں۔ اسلام کو سربلند رکھنے والے کچھ لوگ ہمیشہ ان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیات اور سورۂ صف کی آیت (۸،۹)۔
➏ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص(نعوذ باللہ) مرتد ہو جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، لیکن اگر پھر سچے دل سے تائب ہو کر اسلام قبول کرے تو مرتد ہونے سے پہلے کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ ان کا بھی ثواب مل جاتا ہے۔ (فتح البیان)
اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے اور توبہ نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے، جو «حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا» دنیا میں ان کے اعمال ضائع ہونے کا نتیجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: [ مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ][ بخاری، الجہاد، والسیر، باب لا یعذب بعذاب اللہ: ۳۰۱۷]”جو اپنا دین (اسلام) بدل لے اسے قتل کر دو۔“ اسلام کی وجہ سے دنیا میں حاصل جان و مال اور عزت کی حرمت، مرنے کے بعد جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن، مسلمان بیوی کی زوجیت، وراثت غرض مسلمانوں والے تمام حقوق ارتداد کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے۔