(آیت 214) ➊ ”الْبَاْسَآءُ“ سے مراد فقر و فاقہ اور ”الضَّرَّآءُ“ سے مراد بیماری اور جسمانی تکالیف اور ”زُلْزِلُوْا“ کا مطلب ہے سخت ہلائے گئے۔
➋ مدینہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو جب مشرکین، منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصیبتیں اور تکلیفیں صرف تم پر نہیں آ رہیں، بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقر و فاقہ، جانی و مالی نقصان اور سخت قسم کے خوف و ہراس میں مبتلا کیے گئے، یہاں تک کہ اس زمانے کا رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے ”اللہ کی مدد کب ہو گی“ پکار اٹھے۔ پھر جس طرح ان پر اللہ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمھاری بھی مدد کی جائے گی۔ چنانچہ جب غزوۂ احزاب میں یہ مرحلہ پیش آیا، جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب (۱۰، ۱۲) میں کھینچا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ یاد رہے کہ ان کا ”اللہ کی مدد کب ہو گی“ کہنا اعتراض اور شکوہ کے طور پر نہ تھا، بلکہ بے بسی کے عالم میں اپنی عاجزی اور زاری کی حالت کا اظہار تھا۔ (رازی، ابن کثیر) خَبّاب بن اَرَت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کی: ”یا رسول اللہ! آپ ہمارے لیے نصرت کی درخواست نہیں کرتے، آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”پہلے لوگوں میں سے ایک کے سر کی مانگ پر آرا رکھ دیا جاتا اور وہ اس کے قدموں تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈی کو الگ کر دیا جاتا، یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہو گا یا اسے اپنی بکریوں سے متعلق بھیڑیے کا (خوف ہو گا)، لیکن تم ایسے لوگ ہو کہ بہت جلدی کرتے ہو۔“[ شعب الإیمان للبیہقی: 240/2، ح: ۱۶۳۳۔ بخاری: ۳۶۱۲۔ ابن کثیر: 251/1 ]