تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 196)وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ: طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بیان کیا ہے: جو شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اسے پورا کرنے سے پہلے حلال ہو۔ حج کا پورا کرنا یہ ہے کہ یوم النحر(دس ذوالحجہ) کو جمرہ عقبہ کو کنکر مارے اور طواف زیارت کرے، تو وہ اپنے احرام سے پوری طرح حلال ہو گیا اور عمرے کا پورا کرنا یہ ہے کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لے تو حلال ہو گیا۔ [ طبری: 213/2، ح: ۳۱۹۴ ] یعنی حج یا عمرہ فرض ہو یا نفل احرام باندھ لینے کے بعد پورا کرنا ضروری ہے۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ کی خاطر حج اور عمرہ کے تمام ارکان پوری طرح ادا کرو۔ الفاظ میں دونوں معنی موجود ہیں۔

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ …: یعنی کسی دشمن یا مرض کی وجہ سے کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جہاں رکاوٹ پیدا ہو وہیں بکری یا اونٹ اور گائے کا حصہ، جو بھی میسر ہو، قربانی کرکے احرام کھول دو، جیسا کہ ۶ھ میں مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدود حرم سے باہر حدیبیہ ہی میں قربانی کر کے احرام کھول دیا۔

وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ …: اس کا عطف وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ پر ہے اور یہ حکم حالتِ امن کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی حالتِ امن میں اس وقت تک سر نہ منڈواؤ (یعنی احرام نہ کھولو) جب تک کہ حج و عمرہ کے اعمال پوری طرح ادا نہ کر لو۔ بخاری (۵۰۸۹) اور مسلم (۱۲۰۷) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے پاس گئے تو انھوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں اور میں بیمار ہوں! تو آپ نے فرمایا: حج کرو اور شرط کر لو کہ میرے حلال ہونے کی جگہ وہ ہو گی جہاں (اے اللہ!) تو مجھے روک لے گا۔ معلوم ہوا کہ احرام کے وقت اگر شرط کر لے تو رکاوٹ کی صورت میں اسی جگہ احرام کھول دے اور اس پر کوئی قربانی وغیرہ لازم نہیں۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ …: یعنی احرام باندھنے کے بعد تمھیں کسی بیماری یا عذر کی بنا پر سرمنڈوانے کی ضرورت پیش آ جائے تو سرمنڈوا کر تین چیزوں میں سے ایک بطور فدیہ انجام دو۔ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمھیں اتنی زیادہ تکلیف ہو گئی ہے، کیا تمھارے پاس کوئی بکری (وغیرہ) ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا: تو تم تین روزے رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو نصف صاع (یعنی ایک کلو) اور سرمنڈوا دو۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «فمنکان منکم مریضًا …»: ۴۵۱۷ ] علماء کا اتفاق ہے کہ تینوں چیزوں میں سے جو چاہے کر لے، قرآن کے الفاظ بھی یہی ہیں۔

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ …: کوئی شخص صرف عمرہ ادا کرے یا صرف حج تو اس پر قربانی واجب نہیں، اگر قربانی کرے تو ثواب ہے۔ البتہ اگر حج کے مہینوں میں عمرہ اور حج دونوں کرنے کا فائدہ اٹھائے، خواہ میقات سے دونوں کا احرام اکٹھا باندھے جسے حجِ قران کہتے ہیں، یا پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے، پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھے، جسے حج تمتع کہتے ہیں، دونوں صورتوں میں قربانی واجب ہے، جو کم از کم ایک بکری ہے۔ اگر کسی کے پاس طاقت نہ ہو تو اسے دس روزے رکھنا ہوں گے، تین روزے ایام حج یعنی قربانی کے دن سے پہلے اور سات روزے جب اپنے گھر واپس جائے۔ اگر قربانی کے دن سے پہلے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ) میں رکھ لے۔

تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ: یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب فرما دیا کہ تین روزے حج میں اور سات جب تم واپس جاؤ تو ظاہر ہے کہ یہ دس ہی ہوتے ہیں، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ پورے دس ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں واؤسے مراد أَوْ بھی ہو سکتا تھا کہ حج کے ایام میں تین روزے رکھو، یا پھر واپس جا کر سات روزے رکھو اس لیے وضاحت فرما دی کہ دونوں کام کرنے ہیں اور دس روزے پورے رکھنے ہیں، یہ قرآن کی بلاغت ہے کہ کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔

ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: یعنی جو لوگ مسجد حرام کے رہنے والے نہیں، بلکہ دور سے آنے والے ہیں، چونکہ انھوں نے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ دو سفر کرنے کے بجائے ایک ہی سفر میں دونوں سرانجام دے دیے ہیں، لہٰذا یہ فائدہ اٹھانے پر انھیں قربانی دینا ہو گی، ورنہ دس روزے رکھیں۔ رہے مکہ کے لوگ تو انھیں حج کے مہینوں میں عمرہ و حج کرنے سے چونکہ ایسا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا، اس لیے وہ حج قران کریں یا حج تمتع، ان پر نہ قربانی ہے نہ روزے، وہ ان کے بغیر ہی دونوں عبادتیں سرانجام دے سکتے ہیں۔ امام مالک، امام شافعی رحمھما اللہ اور جمہور کا یہی قول ہے، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ تمتع اور قران صرف باہر سے آنے والوں کے لیے ہے، اہل مکہ کے لیے جائز نہیں۔ مسجد حرام کے رہنے والوں سے مراد مکہ میں رہنے والے اور مکہ سے اتنی مسافت کے اندر رہنے والے ہیں جس پر قصر ہوتا ہے (جو تقریباً اکیس کلو میٹر ہے)۔ بعض نے اس سے صرف حرم مکہ کے اندر رہنے والے مراد لیے ہیں۔ (ابن کثیر، ابن جریر)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.