تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 187) ➊ ابن کثیر میں ہے کہ ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو روزہ کھولنے سے لے کر صرف نماز عشاء تک کھانا پینا اور عورت سے صحبت جائز تھی، اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز پڑھ لی، یا وہ اس سے پہلے سو گیا تو اس کا روزہ شروع ہو جاتا تھا، پھر اگلے روز افطار یعنی سورج غروب ہونے تک کھانا پینا اور جماع اس پر حرام ہوتا تھا، بعض لوگ ضبط نہ کر سکے اور رات کو بیویوں سے صحبت کر بیٹھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں لوگ جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو ان پر کھانا پینا اور بیویاں حرام ہو جاتی تھیں اور وہ اگلی شام تک کے لیے روزے دار ہو جاتے تھے… تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ [ أبو داوٗد، الصیام، باب مبدأ فرض الصیام: ۲۳۱۳ ] ایک انصاری صحابی قیس بن صرمہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ وہ روزے کی حالت میں دن بھر کھیت میں کام کرتے رہے، افطار کے وقت گھر آئے اور بیوی سے پوچھا، کوئی چیز کھانے کے لیے ہے؟ بیوی نے جواب دیا نہیں، آپ ٹھہرئیے، میں جا کر پڑوسیوں سے کچھ لاتی ہوں۔ بیوی کے چلے جانے کے بعد ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئے۔ بیوی کو یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا، پھر اگلے دن انھیں (بغیر کھائے پیے ہی) روزہ رکھنا پڑا۔ ابھی آدھا دن نہیں گزرا تھا کہ کمزوری کی وجہ سے غش کھا گئے۔ اس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، الصوم، باب قول اللہ جل ذکرہ: «‏‏‏‏أحل لکم …» ‏‏‏‏: ۱۹۱۵]

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ …: یعنی میاں بیوی ایک دوسرے سے لباس کی طرح مل جاتے ہیں، انھیں جدا رکھنا یقینًا ان پر شاق ہو گا، اس لیے انھیں رمضان کی راتوں میں مباشرت کی اجازت دے دی گئی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی پردہ نہیں، بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہیں دیکھ سکتے ان کے ایک دوسرے کا لباس ہونے کے منافی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کر لیتے، جو میرے اور آپ کے درمیان ہوتا، جبکہ ہم دونوں جنبی ہوتے۔ [ بخاری، الحیض، باب مباشرۃ الحائض: ۲۹۹ ] عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی روایت کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم گاہ نہیں دیکھی، صحیح نہیں۔ [دیکھیے ضعیف ابن ماجہ للألبانی: ۶۶۸]

وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ: اس سے صحبت کی لذت کے ساتھ ساتھ پاک دامنی کا حصول اور اولاد کی طلب مراد ہے۔ کفار کی خواہش کے مطابق مسلمانوں کا اولاد کی کثرت سے اجتناب جائز نہیں۔

➍ فجر کے سفید دھاگے سے مراد صبح صادق ہے۔ اس سفید دھاگے اور سیاہ دھاگے کے سمجھنے میں بعض صحابہ کو غلط فہمی ہو گئی۔ انھوں نے سرھانے کے نیچے سفید دھاگا اور سیاہ دھاگا رکھ لیا اور اس کے واضح ہونے کا انتظار کرتے رہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس سے مراد رات کی سیاہی سے صبح کی سفیدی واضح ہونا ہے۔ [ بخاری، الصوم، باب قول اللہ تعالٰی: «و کلوا واشربوا …»: ۱۹۱۶، عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ] معلوم ہوا کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان سیکھ لینا کافی نہیں، بلکہ حدیث بھی ضروری ہے۔

➎ فجر تک کھانے پینے اور جماع کی اجازت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جنابت کی حالت میں روزہ رکھ سکتا ہے، غسل اذان کے بعد کر لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہ ثابت ہے۔ [ بخاری، الصوم، باب الصائم یصبح جنبا: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶، ۱۹۳۰ ]

اِلَى الَّيْلِ: یعنی سورج غروب ہونے تک۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ دیر سے افطار کرتے ہیں۔ [ أبو داوٗد، الصیام، باب ما یستحب من تعجیل الفطر: ۲۳۵۳ ]

وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ: رمضان سے چونکہ اعتکاف کا خاص تعلق ہے، اس لیے یہاں اعتکاف کے احکام کی طرف اشارہ فرما دیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء محدثین روزے کے عنوان کے بعد اعتکاف کا عنوان باندھتے ہیں۔ اعتکاف کا معنی اپنے آپ کو کسی کے ساتھ یا کسی جگہ روک کر رکھنا ہے۔ (راغب) اعتکاف میں بیوی سے مباشرت جائز نہیں، نہ مسجد سے نکلنا ہی جائز ہے، سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اگر مباشرت کرے گا یا مجبوری والی ضرورت کے بغیر نکلے گا تو اعتکاف باطل ہو جائے گا۔ ہاں مسجد میں جاکر عورت اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے، جیسا کہ بعض ازواج مطہرات نے مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جا کر ملاقات کی اور بیوی خاوند کی خدمت بھی کر سکتی ہے۔ [ بخاری، الاعتکاف، باب ہل یخرج المعتکف …: ۲۰۳۵، ۲۰۳۰، ۲۰۳۱ ]

فِي الْمَسٰجِدِ: اس لفظ سے معلوم ہوا کہ اعتکاف گھر میں نہیں ہوتا، مسجد میں ہوتا ہے، عورت ہو یا مرد۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں۔ [ بخاری، الصوم، باب اعتکاف النساء: ۲۰۳۳، ۲۰۳۴ ] اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہو سکتا ہے۔ وہ روایت کہ تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں منکر ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے غیر ثابت ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے باب قائم کیا ہے: اَلْاِعْتِكَافُ فِي الْمَسَاجِدِ كُلِّهَا تمام مسجدوں میں اعتکاف (کے جائز) ہونے کا بیان۔ مسئلہ: احادیث میں سحری کے وقت کھانا کھا کر روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سحری کھاؤ، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ [ بخاری، الصوم، باب برکۃ السحور من غیر إیجاب: ۱۹۲۳۔ مسلم: ۱۰۹۵ ] اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانے کا ہے۔ [ مسلم، الصیام، باب فضل السحور …: ۱۰۹۶ ] لہٰذا سحری کے وقت کچھ کھا پی کر روزہ رکھنا چاہیے۔

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا: یہ احکام یعنی صبح صادق تک مباشرت اور کھانے پینے کا جائز ہونا، فجر سے سورج غروب ہونے تک ان چیزوں کی ممانعت اور اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت کی ممانعت، یہ کام اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں، ان کی سختی سے پابندی کرو۔ (ابن کثیر)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.