(آیت186) ➊ اس آیت سے پہلے اور بعد میں ماہِ رمضان کا ذکر ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماہ رمضان، خصوصاً روزے کی حالت دعا کی قبولیت کا خاص سبب ہے اور پھر افطار کا وقت قبولیتِ دعا کا وقت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”روزے دار کے لیے افطار کے وقت ایک قبول کی جانے والی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی۔“[ ابن ماجہ، الصیام، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ: ۱۷۵۳ ]
➋ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ”عِبَادِيْ“ کہہ کر اپنے بندوں پر اپنی خاص رحمت ظاہر کی ہے اور پھر اپنے قریب ہونے کا ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے جس میں نہ کوئی گناہ ہو اور نہ قطع رحمی، مگر اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے، یا تو اس کی دعا جلد قبول کر لیتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کر لیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔“ صحابہ نے کہا: ”پھر تو ہم بہت دعا کریں گے۔“ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے کہیں زیادہ ہے۔“[مسند أحمد: ۳؍۱۸، ح: ۱1۱۳۹۔ صحیح ]
➌ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ: دعا کی قبولیت کے سلسلے میں دو حکم دیے، ایک تو یہ کہ ان پر بھی لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں۔ اگر کوئی شخص اللہ کے احکام پر عمل نہیں کرتا تو خواہ وہ دعویٰ کرتا رہے مگر (توبہ کے بغیر) اس کے دل میں اللہ کی رحمت کی امید کا چراغ روشن نہیں ہوتا۔ (دیکھیے بقرہ: ۲۱۸) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کرتا ہے، بکھرے ہوئے بالوں والا ہے، غبار سے بھرا ہوا ہے، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے (اور کہتا ہے)”یا رب! یا رب!“ حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور وہ حرام غذا کے ساتھ پلا بڑھا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے؟ [مسلم، الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ …: ۱۰۱۵ ] دوسرا حکم یہ کہ مجھ پر ایمان لائیں اور یقین رکھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ کوئی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، بشرطیکہ جلدی بھی نہ کرے۔“ پوچھا گیا: ”یا رسول اللہ! وہ جلدی کیا ہے؟“ فرمایا: ”یہ کہ کوئی کہے کہ میں نے دعا کی اور میں نے (دوبارہ) دعا کی تو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ میری دعا قبول کرتا ہو، سو اس وقت وہ تھک ہار کر رہ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔“[مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب …:2735/92 ]