قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے «وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ» [25-الفرقان:68] یعنی ” مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں۔ “
دوسری جگہ فرمان ہے «قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ»[6-الأنعام:151] یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں۔
بخاری مسلم میں ہے کہ ” سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ “[صحیح بخاری:6533] ابوداؤد میں ہے ” ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہے۔ “[سنن ابوداود:4270،قال الشيخ الألباني:صحیح]
دوسری حدیث میں ہے ” ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے۔ “[سنن ترمذي:1395،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور حدیث میں ہے ” اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ “[سنن ترمذي:1398،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور حدیث میں ہے ” جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔ “[سنن ابن ماجہ:2620،قال الشيخ الألباني:ضعیف]