تفسير ابن كثير



قتل مسلم ، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا ٭٭

ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔ [صحیح بخاری:6878] ‏‏‏‏

پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہو جائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضاء کا حق ہے، اس کے بعد استثناء منقطع ہے، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں۔

اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابوجہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا۔

سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کر دوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہو گئے اور ہجرت بھی کر لی لیکن سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کر دیا اور قتل کر دیا اس پر یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:32/9] ‏‏‏‏

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہوا تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ [تفسیر ابن جریر الطبری:10099:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے۔

پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا، اس غلام کے لیے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہو گا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو، امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں۔

ایک انصاری رضی اللہ عنہ سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے؟ اس نے کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کر دو [مسند احمد:452/3:صحیح] ‏‏‏‏ اس کی اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں۔

یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں؟ جواب دیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کر دو۔ یہ ایماندار ہے [صحیح مسلم:537] ‏‏‏‏

پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ قسموں کے، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد۔ [سنن ابوداود:4545،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ حدیث بروایت عبداللہ رحمہ اللہ موقوف بھی مروی ہے۔ [بیہقی:47/8:موقوف] ‏‏‏‏ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں۔

بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہو گیا اور وہ بھی مر گئی قصہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے۔ [صحیح بخاری:6910] ‏‏‏‏

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہو گی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لیے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کر لی لیکن بوجہ لاعلمی بجائے «اسلمنا» یعنی ہم مسلمان ہوئے کے «صبانا» کہا یعنی ہم بےدین ہوئے۔

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ۔ “ [صحیح بخاری:7189،4339] ‏‏‏‏

اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہو گا۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہو جائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کر سکتے ہیں۔

پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی۔

تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے در پے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں۔

پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کر سکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کر دی جاتی تو ہیبت و عظمت اتنی باقی نہ رہتی۔

دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کر دیا جاتا، حاجب کے وقت سے بیان کو مؤخر کرنا ٹھیک نہیں (‏‏‏‏یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) اللہ علیم وحکیم ہے، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.