(آیت 172) اس سے پہلے سب لوگوں کو حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اہل ایمان کو حلال اور پاکیزہ روزی کھانے اور کمانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”اے لوگو! بے شک اللہ طیب (پاک) ہے، طیب کے سوا کچھ قبول نہیں فرماتا، اس نے ایمان والوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا، چنانچہ فرمایا: «یاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ» [ المؤمنون: ۵۱ ]”اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، یقینًا میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں۔“ اور فرمایا: «یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ» [ البقرۃ: ۱۷۲ ]”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، بکھرے بالوں والا ہے، گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: ”اے میرے رب! اے میرے رب! “(اور صورت حال یہ ہے کہ) اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اسے جو غذا دی گئی ہے وہ بھی حرام تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتہا: ۱۰۱۵، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]