(آیت 165) ➊ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں بتایا کہ اس قدر ظاہر اور واضح دلائل دیکھنے کے باوجود دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو انداد (برابر اور شریک) بناتے ہیں۔ کائنات کی حکمرانی، مخلوق کی حاجت روائی، مشکل کشائی، دعائیں سننا، تمام غائب و حاضر چیزوں سے واقف ہونا، جو اللہ کی خاص صفات ہیں، یہ لوگ یہ صفات ان بناوٹی معبودوں میں سمجھتے ہیں بلکہ ان سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں جو صرف اللہ سے ہونی چاہیے، جبکہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان سے کہیں زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ انداد سے مراد وہ فوت شدہ بزرگ ہیں جن کے بت بنا کر وہ انھیں پکارتے اور پوجتے تھے، جیسا کہ سورۂ نوح میں مذکور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ یہ ان کی قوم کے نیک لوگ تھے، جن کے فوت ہونے پر انھوں نے ان کے بت بنائے۔ بعد میں یہی بت عرب میں بھی بن گئے۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «ودا ولا سواعا ولا یغوث و یعوق»: ۴۹۲۰ ] گویا بت پرستی بھی دراصل بزرگ پرستی ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر مکہ فتح ہونے کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کعبہ سے بت نکالے تو ان میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی صورتیں بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں فال کے تیر تھے۔ [ بخاری، المغازی، باب أین رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم …: ۴۲۸۸ ]
”اَنْدَادًا“ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو انسان کے دل پر مسلط ہو کر وہ مقام بنا لے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ بت پرست ان ہستیوں کی مورتیاں بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ قبر پرست ان ہستیوں کی قبروں پر عمارتیں بنا کر ان کی پوجا کرتے ہیں، انھیں نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں، مصیبت کے وقت ان سے فریاد کرتے ہیں۔ خصوصاً یہود و نصاریٰ میں یہ چیز عام تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع کر دیا اور علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ہر اونچی قبر کو برابر کر دیں۔ [ مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر: ۹۶۹، ۹۷۰ ] کچھ وہ ہیں جو تصورِ شیخ کے ذریعے سے دل میں ایک فانی انسان کا نقشہ جما کر اس سے وہ محبت کرتے ہیں جو محض اللہ کا حق ہے، پھر ان پر وہ محبت ایسی غالب ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے بجائے شیخ کے حکم کو اللہ کے حکم کا درجہ دیتے ہیں، جب کہ مخلوق کا یہ حق ہی نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برابر کیا جائے۔ انداد کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۲۲)۔
➋ مسلمانوں میں کئی ایسے بدنصیب بھی ہیں جو اس آیت کا، جس میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کے ساتھ اللہ تعالیٰ جیسی محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس مقصد کے لیے وظیفہ کرتے اور اس کا تعویذ لکھتے ہیں کہ کسی لڑکی یا لڑکے کو اپنی محبت کے دام میں گرفتار کریں۔ یہ وہی یہودیانہ خصلت ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۷۸، ۱۰۲) میں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ شیطان انھیں اس راستے پر لگانے والا ہے اور قرآن جس بات سے منع کر رہا ہے اسی کے لیے قرآن کو پڑھا یا لکھا جائے تو لعنت کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے۔
➌ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ: یعنی ایمان والے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کو دوسروں کی محبت اور رضا سے مقدم رکھتے ہیں۔ کسی کی محبت بھی ان کے دل میں یہ مقام حاصل نہیں کر سکتی کہ وہ اسے اللہ کی محبت اور رضا پر قربان نہ کر سکیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۲۴)۔
➍ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا: اس سے مراد شرک کرنے والے اور کافر لوگ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ»[لقمان: ۱۳ ]”بے شک شرک یقینًا بہت بڑا ظلم ہے۔“ دلیل اس کی یہ ہے کہ وہ آگ سے کسی صورت نکلنے والے نہیں اور آگ سے کبھی نہ نکلنے والے یا مشرک ہیں یا کافر۔ دیکھیے سورۂ نساء (۴۸، ۱۱۶) اور سورۂ اعراف (۵۰) جب کہ اہل السنہ کا اتفاق ہے کہ اہل ایمان آخر کار جہنم سے نکل آئیں گے۔
➎ وَ لَوْ يَرَى:”اس وقت کو دیکھ لیں“ یعنی دنیا میں وہ منظر دیکھ لیں۔