(آیت 155تا157) ➊ مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے، وہ خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی، شوکانی) «اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ» یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ دل کی حاضری سے کہا جائے تو اس میں اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اللہ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں اور اس کا بھی کہ ہمیں ہر حال میں اس کے پاس واپس جانا ہے۔ وہ جب چاہے، جسے چاہے واپس بلائے، اس پر شکوہ و شکایت کا کیا موقع ہے؟ اس سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کرنے والوں کو تین نعمتیں ملتی ہیں: (1) رب کی مہربانیاں۔ (2) اس کی بہت بڑی رحمت (”رَحْمَةٌ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے)۔ (3) اور ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ قرآن مجید میں صبر کا ذکر ستر (۷۰) دفعہ آیا ہے۔
➋ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ: اس میں لفظ ” اِذَا“ میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور ”اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ“ کہنا چاہیے، بعد میں رو دھو کر تو ہر شخص ہی صبر کر لیتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: [إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی][ بخاری، الجنائز، باب زیارۃ القبور: ۱۲۸۳]”صبر صرف وہ ہے جو پہلی چوٹ کے وقت ہو۔ “
➌ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے): [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَ أَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا](یقینًا ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔ “ ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ پھر جب (میرے خاوند) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے کہا مسلمانوں میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون ہو گا؟ پہلا گھرانہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ (مذکورہ بالا) کلمہ کہہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عطا فرما دیے۔ [مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ: ۹۱۸]