(آیت 125) ➊ مَثَابَةً: یہ ”ثَابَ يَثُوْبُ“(لوٹنا) سے ظرف ہے، یعنی ”لوٹ کر آنے کی جگہ“ لوگ بار بار اللہ کے گھر کی طرف لوٹ کر آتے ہیں، کبھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ دیکھیے سورۂ حج(۲۷) اور سورۂ ابراہیم(۳۷) دوسری خصوصیت یہ کہ اسے سرا سر امن والی جگہ بنا دیا، جاہلیت میں بھی آدمی اپنے دشمن کو دیکھتا مگر اسے کچھ نہ کہتا۔ اسلام نے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس میں تاکید اور اضافہ کیا۔
➋ مقام ابراہیم علیہ السلام کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیرکیا۔ صحیح مسلم میں حجۃ الوداع کے واقعہ میں جابر رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کی طرف آئے اور یہ آیت پڑھی: « وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى »[ البقرۃ: ۱۲۵ ] پھر مقام (ابراہیم) کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرکے دو رکعتیں پڑھیں۔ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸ ] جیسا کہ حاجی لوگ پڑھتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کا مشورہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جس کی موافقت اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ [ بخاری، الصلوۃ، باب ما جاء فی القبلۃ …: ۴۰۲ ] عمر رضی اللہ عنہ کی موافقات کی تعداد اٹھارہ ہے۔
دوسرا قول تفسیر عبد الرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد مقام حج ہے یعنی حرم اور عرفات جہاں ابراہیم علیہ السلام نے حج میں قیام کیا۔ چنانچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ طواف کی دو رکعتیں حرم میں جہاں بھی پڑھ لے درست ہے۔
➌ طَهِّرَا بَيْتِيَ......: طہارت سے مراد کوڑا کرکٹ سے صفائی ہی نہیں بلکہ بت پرستی اور شرک کی تمام نجاستوں سے بھی صفائی ہے، کیونکہ طواف، اعتکاف، رکوع اور سجدہ اللہ کے سوا کسی کا حق نہیں۔ مشرکینِ مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمھارے باپ کو کیا حکم دیا گیا تھا اور تم نے عین کعبہ میں بت لا کر کیسی فرماں برداری کی۔