(آیت 124) ➊ بِكَلِمٰتٍ: بعض مفسرین نے ان باتوں سے مراد والد، قوم اور بادشاہ کو توحید کی دعوت، بت پرستی، ستارہ پرستی اور شاہ پرستی کی تردید، آگ میں پھینکے جانے پر صبر، پھر ہجرت، مصر کے جبار بادشاہ کی دست درازی کے باوجود استقامت، بیوی بچے کو وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑنا اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے پر مکمل آمادگی کو لیا ہے۔ بعض نے آگے آنے والی آیات میں مذکور بیت اللہ کی تعمیر و تطہیر اور حج کے مناسک اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ”اَسْلِمْ“(فرماں بردار ہو جا) پر فرماں بردار ہونے کے اقرار، پھر اس کے عملی ثبوت کو مراد لیا ہے۔ [ ابن أبی شیبۃ عن مجاہد ] تفسیر عبد الرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش طہارت کے احکام کے ساتھ کی، جن میں سے پانچ سر سے متعلق اور پانچ باقی جسم سے متعلق تھے۔ سر سے متعلق مونچھیں کترنا، کلی کرنا، ناک کی پانی سے صفائی کرنا، مسواک کرنا، سر کی مانگ نکالنا تھا اور جسم کے متعلق ناخن کاٹنا، زیرِ ناف بال مونڈنا، ختنہ کرنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا اور پیشاب و پاخانے کے نشان کو پانی سے دھونا تھا۔ صحیح بخاری(۵۸۸۹)، مسلم (۲۵۷) اور ابوداؤد(۴۱۹۸) وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کو فطرت میں سے شمار فرمایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش میں یہ سب چیزیں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جو بھی حکم دیا انھوں نے وہ پورا کر دکھایا، بڑھاپے میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو پورا کر دیا، اسّی (۸۰) سال کی عمر میں اپنا ختنہ کرنے کا حکم ہوا تو وہ بھی کر دیا۔ [ بخاری، الاستئذان، باب الختان بعد الکبر …: ۶۲۹۷ ]
➋ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ......: جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو تمام لوگوں کا امام بنا دیا تو انھوں نے اپنی بعض اولاد کے حق میں امامت کی دعا کی، سب کے حق میں نہیں کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، تو یہ دعا کیوں کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، مگر اس کے ساتھ ہی انھیں بتا دیا کہ تمھاری اولاد میں سے ظالم لوگ اس نعمت سے سرفراز نہیں ہوں گے۔ اس سے بنی اسرائیل کے گمراہ لوگوں اور بنی اسماعیل کے مشرکین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خراب ہو چکے ہیں، محض ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونا کافی نہیں۔