(آیت 93) ➊ ”سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا“ یہ دونوں لفظ انھوں نے زبان سے کہہ دیے ہوں تو کچھ تعجب نہیں، جو قوم « فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ » کہہ سکتی ہے ان سے یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ رفع طور کے وقت ”سَمِعْنَا“ کہہ دیا ہو اور بعد میں صاف ”ہم نہیں مانتے“ کہہ دیا ہو۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ان کے زبان سے اقرار کو ”سَمِعْنَا“ اور عمل نہ کرنے کو ”عَصَيْنَا“ سے بیان فرمایا ہے، گویا انھوں نے زبانِ حال سے یہ کہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین سے کہا: « ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قَالَتَاۤ اَتَيْنَا طَآىِٕعِيْنَ »[ حٰمٓ السجدۃ: ۱۱ ]”تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے آ گئے۔“ اس تفسیر کی بھی گنجائش ہے، مگر جب ان کا منہ میں موجود زبان سے کہنا ممکن ہے، بلکہ صاف ظاہر ہے تو زبانِ حال کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ آیت: « ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ »[ البقرۃ: ۶۴ ] میں بھی ان کا عہد و میثاق کے بعد اس سے پھر جانا گزر چکا ہے۔
➋ وَ اُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ: جس طرح پانی رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے اسی طرح اس بچھڑے کی محبت ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی۔ ” الْعِجْلَ “ سے پہلے ” حُبٌّ “ کا لفظ مقدر ہے۔ ”الْعِجْلَ“ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ”اس بچھڑے“ ترجمہ کیا گیا۔ ”اُشْرِبُوْا“ کے الفاظ سے اشارہ ہے کہ اس بچھڑے کی محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ اس میں ان کا کچھ اختیار نہ رہا، بلکہ یہ معاملہ ہو گیا جیسے کسی اور نے ان کے دلوں میں اس کی محبت انڈیل دی ہو۔
➌ بِكُفْرِهِمْ: ان کی بچھڑے سے اس حد تک محبت اور عبادت بھی کفر تھی، مگر اس کا باعث ان کا سابقہ کفر تھا جس کا ذکر شروع سورت سے آ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ کفر مزید کفر کا اور ایمان مزید ایمان کا باعث ہوتا ہے۔
➍ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ: یہ ان کے اس دعویٰ پر مزید چوٹ ہے کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا، یعنی حقیقت میں تم تورات پر بھی ایمان نہیں رکھتے، ورنہ تورات پر ایمان تمھیں ”سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا“ کہنے کا اور بچھڑے کی عبادت جیسے صریح شرک کا حکم کیسے دے سکتا ہے اور اگر دیتا ہے تو تمھارا ایمان تمھیں بہت بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔