(آیت 78،77) بنی اسرائیل کے عناد اور سرکشی کو بیان کرنے کے بعد اب ان کے مختلف طبقوں کا بیان ہو رہا ہے، اس آیت میں عوام کی حالت بیان کی گئی ہے۔ (رازی) اُمیّ وہ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور ”اَمَانِيَّ“”اُمْنِيَّةٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی آرزوؤں یا من گھڑت روایات کے ہیں، یعنی یہود میں ایک طبقہ جو عوام کا ہے اور ان پڑھ ہے، انھیں ”الْكِتٰبَ“ یعنی تورات کا تو کچھ علم نہیں، مگر وہ اپنے سینوں میں بعض بے بنیاد قسم کی آرزوئیں پالے ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے بزرگوں کی وجہ سے اللہ انھیں ضرور بخش دے گا، یا یہ کہ جنت میں یہود کے سوا کوئی نہیں جائے گا وغیرہ، مختلف قسم کی خرافات کا عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی غلط آرزوئیں ہیں یا من گھڑت قصے ہیں جو انھوں نے سن رکھے ہیں۔ (ترجمان)
”اُمْنِيَّةٌ“ کا ایک معنی تلاوت بھی آتا ہے، جیسا کہ: « اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْۤ اُمْنِيَّتِهٖ »[ الحج: ۵۲ ] کا ایک ترجمہ تلاوت بھی کیا گیا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ خالی تلاوت کر سکتے ہیں مگر انھیں اس کے مطلب کی کچھ خبر نہیں، جیسا کہ آج کل اکثر مسلمان، خواہ حافظِ قرآن ہوں، محض تلاوت کر سکتے ہیں، مگر مفہوم سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ ایسا پڑھنا نہ پڑھنے ہی کے برابر ہے، اس لیے ان کے اُمّی ہونے کے خلاف نہیں۔