(آیت 48) ➊ نعمت یاد دلانے کے بعد انھیں قیامت کے عذاب سے ڈرایا۔ بنی اسرائیل میں فساد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء اور علماء پر ناز کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کتنے ہی گناہ کر لیں ہمارے بزرگ اور آبا و اجداد ہمیں بخشوا لیں گے، ان کے اسی باطل گمان کی تردید کی گئی ہے۔
➋ کسی گرفتار شخص کو چھڑانے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں، کسی کی سفارش کام آ جائے، یا فدیہ دے کر چھڑا لیا جائے، یا زبردستی حملہ کر کے چھڑا لیا جائے، قیامت کے دن ان میں سے کوئی بھی ممکن نہیں۔
➌ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی سفارش قبول نہیں ہو گی، مگر دوسرے مقامات پر وضاحت فرمائی ہے کہ جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے وہ کفار کے لیے شفاعت ہے: « فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ »[ المدثر: ۴۸ ]”پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر بھی شفاعت ممکن نہیں ہو گی، فرمایا: « مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ »[ البقرۃ: ۲۵۵ ]”کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔“ ہاں! جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اس کے لیے سفارش ہو گی اور اسے نفع بھی دے گی۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ(۱۰۹) اور قیامت کے دن اہلِ ایمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی احادیث متواتر ہیں۔