(آیت 39،38) ➊ قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا: توبہ کی قبولیت کے بعد پھر پہلا حکم دہرایا، مقصد یہ کہ گناہ کی معافی کے باوجود اب تمھیں اور تمھاری اولاد سب کو زمین ہی پر رہنا ہو گا، جس کی خلافت کے لیے تمھیں پیدا کیا گیا ہے۔ جنت میں واپسی کے لیے تمھیں اس ہدایت اور راستے پر چلنا ہو گا جو میری طرف سے تمھارے پاس آئے گی۔
➋ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى: مخاطب آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی ہیں، مگر مراد ان کی اولاد ہے، یعنی تمھارے پاس میری طرف سے انبیاء و رسل بذریعہ وحی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ ہدایت کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی آخری وحی الٰہی ہے، اس دوران میں کتنے نبی اور رسول آئے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء، حاشیہ آیت (۱۶۴)۔ آج ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دو ہی چیزیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔“[ المؤطا، القدر، باب النہی عن القول بالقدر: ۳۔ مستدرک حاکم: 171/1، ح: ۳۱۸۔ الصحیحۃ: ۱۷۶ ]
➌ فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ: پہلے ”فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى“ میں اپنی طرف سے ہدایت آنے کی بات کی پھر ”فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ“ میں” هُدَايَ “ کو یائے متکلم کی طرف مضاف کیا، یعنی ”پھر جو میری ہدایت کی پیروی کرے۔“ معلوم ہوا ہدایت صرف وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے لوگوں کی رائے کبھی ہدایت قرار نہیں پا سکتی خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں۔
➍ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ: خوف آنے والی کسی چیز سے ڈر کو اور حزن ہاتھ سے نکل جانے والی کسی چیز پر غم کو کہتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کی پیروی کریں گے وہ آخرت میں نہ دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے، جیسا کہ کفار کو افسوس ہو گا [ الأنعام: ۲۷] اور نہ قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے انھیں کوئی غم ہو گا۔ [الأنبياء: ۱۰۳ ] فرمایا: «وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ» [ النمل: ۸۹ ]”اور وہ اس دن بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔“