(آیت 35) ➊ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کروانے کے بعد انھیں جنت کی سکونت عطا فرمائی۔ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ حوا اس وقت پیدا ہو چکی تھیں، ان کی پیدائش کے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۱) اور سورۂ اعراف (۱۸۹)۔
➋ یہ کون سا درخت تھا؟ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا، اگر اس کی ضرورت ہوتی، یا اس سے کوئی فائدہ ہوتا تو ضرور بتا دیا جاتا۔ بعض مفسرین نے گندم یا انگور یا انجیر وغیرہ کا نام لیا ہے، مگر یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔
➌ وَ لَا تَقْرَبَا.....: اس درخت کے کھانے سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا۔ اس سے شریعت کا قاعدہ سد ذرائع ثابت ہوتا ہے، یعنی جو چیز حرام کا ذریعہ بنتی ہے اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً زنا سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا, فرمایا: « وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى »[ بنی إسرائیل: ۳۲ ]”اور زنا کے قریب مت جاؤ۔“ حرام سے بچنے کے لیے مشتبہات یعنی شبہے والی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک حلال بالکل ظاہر ہے اور بے شک حرام بالکل ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ (شبہے والی) چیزیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جو شخص شبہات سے بچے گا وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو پوری طرح بچا لے گا اور جو شبہات میں پڑ جائے گا وہ حرام میں پڑ جائے گا، جیسے وہ چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ میں جانور چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے اندر چرنے لگے۔ یاد رکھو! اور ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔“[ مسلم، المساقاۃ والمزارعۃ، باب أخذ الحلال و ترک الشبہات: ۱۵۹۹ ] اسی طرح اللہ تعالیٰ کو گالی سے بچانے کے لیے معبودان باطلہ کو گالی دینے سے منع فرمایا: « وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ »[ الأنعام: ۱۰۸ ]”اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، پس وہ زیادتی کرتے ہوئے کچھ جانے بغیر اللہ کو گالی دیں گے۔“