(آیت 20،19) ➊ یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کے دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے، یعنی وہ لوگ جو بظاہر مسلمان تو ہو گئے تھے مگر ضعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک اور تذبذب میں مبتلا رہتے تھے، راحت و آرام کی صورت میں مطمئن نظر آتے، جب تکالیف کا سامنا ہوتا تو شک و شبہ میں پڑ جاتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرٌ اطْمَاَنَّ بِهٖ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةَ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ »[ الحج: ۱۱ ]” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آ پہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھر جاتا ہے، اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔“ان آیات میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان کے لیے روشنی ہوتی ہے چل پڑتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر)
➋ بارش سے مراد اسلام ہے، اندھیروں اور گرج سے مراد وہ تکلیفیں اور مصیبتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں پیش آتی ہیں، چمک سے مراد مسلمانوں کو حاصل ہونے والی کامیابیاں اور کڑکنے والی بجلیوں سے مراد جہاد کے احکام ہیں، جن میں منافقین کو موت دکھائی دیتی ہے۔
➌ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: دین اسلام میں آخر سب نعمت ہے، مگر اول کچھ محنت ہے، جیسے بارش کہ آخر اسی سے آبادی ہے اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے۔ منافق لوگ اول سختی سے ڈر جاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کچھ اجالا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا، اسی طرح منافق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ (موضح)
➍ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ...: اور اگر اللہ چاہتا تو پہلے گروہ کی طرح ان کی سماعت اور ان کی نگاہیں لے جاتا، مگر اللہ کا دستور ہے کہ جو شخص جس حد تک سننا دیکھنا چاہے وہ اسے سننے اور دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔
➎ ”قَدِيْرٌ:“ مبالغے کا صیغہ ہے، اس لیے ”پوری طرح قادر “ ترجمہ کیا گیا ہے۔