(آیت 12،11) ➊ یہاں منافقین کے دو اوصاف بیان ہوئے ہیں، فساد یعنی زمین میں بگاڑ پیدا کرنا۔ اس میں اللہ کی ہر نافرمانی شامل ہے، کیونکہ اس سے زمین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، فرمایا: « ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ »[ الروم: ۴۱ ]”خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔“ دوسرا وصف بگاڑ پیدا کرنے کو عین اصلاح قرار دینا۔ یہ لوگ دل میں کفر رکھنے کی وجہ سے کفار سے دوستی رکھتے تھے، مسلمانوں کے راز انھیں بتاتے اور اسلام کے عقائد و احکام پر اعتراض کرتے تھے اور منع کرنے پر اپنے اس عملِ بد کو اصلاح کا نام دیتے تھے۔
اب بھی مسلمانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کو اولیاء کا ادب، بدعات کو قربِ الٰہی کا ذریعہ، کفار سے دوستی اور ان کے غلبے کے لیے کوشش کو حالات کا تقاضا قرار دیتے ہیں، مسلمانوں کی نسل کشی کو خاندانی منصوبہ بندی کہتے ہیں، بدکاری و بے حیائی پھیلاتے ہیں اور اسے عورتوں کے حقوق کا تحفظ قرار دیتے ہیں۔ ہر برے سے برا کام نام بدل کر خوش نما بنا لیتے ہیں، کچھ اور لوگوں نے زنا کو متعہ اور حلالہ کا، باجوں گاجوں اور موسیقی کو قوالی اور روح کی غذا کا اور نشہ آور مشروبات کو نبیذ وغیرہ کا نام دے کر حلال کر رکھا ہے۔ یہ سب نفاق کے مختلف مظاہر ہیں۔
➋ لَا يَشْعُرُوْنَ: دل بیمار ہو تو اچھے برے کا شعور بھی ختم ہو جاتا ہے، پھر آدمی اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے، فرمایا: « اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا »[ فاطر: ۸ ]” تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا گیا تو اس نے اس کو اچھا سمجھا (اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں)؟“