(آیت 7) ان کے کفر اور اعمال بد کے نتیجے میں ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں اور قبولِ حق کی استعداد جو فطرتاً ہر شخص میں رکھی گئی ہے ان سے چھن چکی ہے۔ یہ مہر اگرچہ اللہ تعالیٰ نے لگائی ہے مگر اس کا باعث ان کا عمل ہے، فرمایا: « بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ »[ النساء: ۱۵۵ ]”بلکہ اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے مہر کر دی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، پھر جب وہ باز آ جائے، استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل چمک جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، یہی وہ زنگ ہے جو اللہ نے ذکر فرمایا ہے: « كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ »[ المطففین: ۱۴ ]”ہر گز نہیں، بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر جو وہ کماتے ہیں۔“[ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ ویل للمطففین …: ۳۳۳۴، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ و حسنہ الألبانی ] «غِشَاوَةٌ» پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری پردہ“ کیا گیا ہے۔