(آیت 4) ➊ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ: خواہ قرآن ہو یا سنت، فرمایا: «وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ» [ النساء: ۱۱۳ ]”اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔“
➋ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ: یعنی وہ وحی الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں، خواہ کسی پیغمبر پر اتری ہو۔ جو لوگ کسی پیغمبر پر وحی کا اترنا ہی نہیں مانتے ان کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں۔ البتہ اب عمل اسی پر ہو گا جو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ [دیکھیے الحجر: ۹ ] جبکہ پہلی کتابیں اصل حالت میں موجود ہی نہیں۔
➌ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ: آخرت کا لفظ ”اول“ کے مقابلہ میں ”آخر“ کے ساتھ تاء لگانے سے بنا ہے۔ دنیا کی زندگی کے بعد والی زندگی، اس کا یقین ہی انسان کو نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے پر آمادہ کر سکتا ہے، اس لیے یہ ایمان کا بنیادی جز ہے۔” هُمْ “ ضمیر کے ساتھ حصر پیدا ہوتا ہے، یعنی آخرت پر صحیح یقین رکھنے والے اہل اسلام ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کے عقائد درحقیقت اوہام و خرافات پر مبنی ہیں، مثلاً یہود و نصاریٰ کا دعویٰ کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے اور آگ میں گئے بھی تو چند دن رہیں گے۔ اسی طرح ہندوؤں کا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد نیکوں کی روح کسی بہتر جان دار میں منتقل ہوتی ہے اور بروں کی روح کسی برے جانور، مثلاً کتے یا چوہے وغیرہ کی شکل میں منتقل ہوتی ہے۔