تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 2)لَا رَيْبَ فِيْهِ: یعنی یہ وہ کتاب ہے جس میں شک والی کوئی بات ہی نہیں، اس کی ہر بات یقینی ہے، انسان کا علم چونکہ ناقص ہے، اس لیے اس کی ہر بات یقینی نہیں ہو سکتی۔ علاوہ ازیں اس کتاب کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں، فرمایا: [ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ] [ السجدۃ: ۲ ] اس کتاب کا نازل کرنا جس میں کوئی شک نہیں جہانوں کے رب کی طرف سے ہے۔ اگر کسی کو اس کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے میں شک ہو تو اس کا علاج اسی سورۂ بقرہ کی آیت (۲۳) میں بیان فرمایا گیا ہے۔

هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ: ہدایت کا ایک معنی راستہ دکھانا ہے، اس لحاظ سے تو قرآن تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ «‏‏‏‏هُدًى لِّلنَّاسِ» [ آل عمران: ۴ ] (یہ) تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ دوسرا معنی منزل تک پہنچا دینا ہے۔ (دیکھیے القصص: ۵۶) اس لحاظ سے یہ صرف متقین کے لیے ہدایت ہے، کیونکہ منزل پر وہی پہنچتا ہے جو رہبر کے کہنے پر چلتا ہے، شفا اسی مریض کو ہوتی ہے جو نقصان دہ چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔ متقی کا لفظ وِقَايَةٌ سے مشتق ہے، جس کا معنی بچاؤ اور حفاظت ہے۔ شرع میں متقی وہ ہے جو ہر ایسی چیز سے اپنے آپ کو باز رکھے جس کے کرنے یا چھوڑنے سے خطرہ ہو کہ وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ہو سکتا ہے۔ (کشاف) متقین کی کچھ صفات آئندہ آیات میں آ رہی ہیں۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی آیت(۱۷۷)۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.