یہ قرآن مجید کی سات سب سے لمبی سورتوں میں سے ہے، جن کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ اَخَذَ السَّبْعَ الْأُوَلَ فَهُوَ حَبْرٌ ]”جس نے یہ سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم دین بن گیا۔“[ مسند أحمد:82/6، ح: ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا، و إسنادہ حسن ] یہ سورت بہت سے مواعظ و احکام اور قصص پر مشتمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ” سَنَامُ الْقُرْآنِ“(قرآن کا کوہان) قرار دیا ہے۔ [ مسند أبی یعلٰی: ۷۵۱۶۔ الصحیحۃ: ۵۸۸، عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھروں کو مقبرے نہ بناؤ، یقینًا شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتی رہے۔“[ ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ …: ۲۸۷۷، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، و صححہ الألبانی ] ایک روایت میں ہے: ” شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔“[ مسلم، صلوۃ المسافرین، باب استحباب صلوۃ النافلۃ: ۷۸۰ عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ] ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو نہایت روشن سورتیں بقرہ اور آل عمران پڑھا کرو، کیونکہ قیامت کے دن یہ اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہوں، یہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے جھگڑیں گی۔ سورۂ بقرہ پڑھا کرو، کیونکہ اس کا حاصل کرنا باعث برکت ہے اور اسے چھوڑ دینا موجب حسرت ہے اور اہل باطل اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ “[ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ: ۸۰۴ ] عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء اس زمانے میں اتریں جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ [ بخاری، فضائل القرآن، باب تالیف القرآن: ۴۹۹۳ ]
(آیت 1)الٓمّٓ:کچھ سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں انھیں مقطعات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں، ان کا معنی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حروف تہجی کے نام ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا کوئی معنی ہی نہیں، مگر یہ حروف سورتوں کے شروع میں کیوں لائے گئے ہیں، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے خلفائے اربعہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حروف سر الٰہی ہیں جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر اس کی سند نہ قرطبی نے ذکر کی ہے نہ کہیں اور مل سکی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں، مگر صحتِ سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ بعض علماء نے ان کی تفسیر میں اپنی طرف سے کچھ نکات بیان کیے ہیں، مگر وہ محض فنی کاوش ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
سب سے قریب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید انھی حروف تہجی میں اتارا ہے، اگر تمھیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمھارے بھی علم اور استعمال میں ہیں تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کر لے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آئے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے، ابن کثیر نے فراء، مبرد، زمخشری اور دوسرے علماء کے علاوہ ابن تیمیہ کا یہی قول ذکر کیا ہے، مگر یہ بات پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ کسی سورت کے شروع میں جو حروف آئے ہیں اس کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے، مثلاً کچھ سورتوں کے شروع میں الٓمّٓ ہے تو دوسری سورتوں کے شروع میں الرٰ یا طٰس وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حکمت تک رسائی ہمارے بس سے باہر ہے اور یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان متشابہات سے ہیں جن کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔