(آیت 7) ➊ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ: یعنی جن لوگوں پر تو نے دوسرے بے شمار انعامات کے ساتھ اپنی اطاعت کی توفیق کاخاص انعام کیا، ان سے مراد چار قسم کے لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، فرمایا: «وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ» [ النساء: ۶۹ ]”اور جو کوئی اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے۔“ قرآن مجید میں مذکور انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے تمام واقعات اس مختصر جملے کی تفصیل ہیں۔
➋ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ: قرآن مجید میں ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ یہود کو کہا گیا ہے، چنانچہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: «وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ»[ البقرۃ: ۶۱ ]”اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب لے کر لوٹے۔“ اور فرمایا: «فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ» [ البقرۃ: ۹۰ ]”پس وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے۔“ اور فرمایا: «قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِيْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ» [ المائدۃ: ۶۰ ]”کہہ دے کیا میں تمھیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ غصے ہوا اور جن میں سے اس نے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں سب سے برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“
اور ” الضَّآلِّيْنَ “ نصاریٰ کو کہا گیا ہے، چنانچہ فرمایا: «وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ»[ المائدۃ: ۷۷ ]”اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔“ اس آیت سے پہلے مسلسل نصاریٰ کا ذکر آ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ اور ” الضَّآلِّيْنَ “ کی یہی تفسیر فرمائی۔ چنانچہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَلْيَهُوْدُ مَغْضُوْبٌ عَلَيْهِمْ وَ النَّصَارٰی ضُلَّالٌ ]”یہود ” مَغْضُوْبٌ عَلَيْهِمْ “ ہیں اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔“[ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب: ۲۹۵۴، و صححہ الألبانی ]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر سے ثابت ہو گیا کہ ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ یہود ہیں اور ” الضَّآلِّيْنَ “ نصاریٰ، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن میں وہ عادات و خصائل پائے جاتے ہیں جو یہود کے ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ بننے کا باعث ٹھہرے، یا جن کی وجہ سے نصاریٰ ” الضَّآلِّيْنَ “(گمراہ) ٹھہرے۔ مثلاً یہود پر غضب نازل ہونے کے اسباب جو اللہ تعالیٰ نے شمار فرمائے ہیں اختصار کے ساتھ یہ ہیں، اللہ کی کتاب میں تحریف، اللہ کی آیات کو چھپانا، اللہ کی حدود مثلاً رجم اور ہاتھ کاٹنے کو معطل کرنا، اللہ پر جھوٹ باندھنا، اپنے پاس سے مسائل بیان کرکے انھیں اللہ کا حکم قرار دینا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حسد کی وجہ سے ایمان نہ لانا اور باہمی ضد کی وجہ سے بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ جانا۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” وَ بِالْجُمْلَةِ فَاِنْ شِئْتَ أَنْ تَرَي نَمُوْذَجَ الْيَهُوْدِ فَانْظُرْ اِلٰي عُلَمَاءِ السُّوْءِ مِنَ الَّذِيْنَ يَطْلُبُوْنَ الدُّنْيَا وَ قَدِ اعْتَادُوْا تَقْلِيْدَ السَّلَفِ وَ اَعْرَضُوْا عَنْ نُّصُوْصِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَ تَمَسَّكُوْا بِتَعَمُّقِ عَالِمٍ وَ تَشَدُّدِهِ وَ اسْتِحْسَانِهِ فَاَعْرَضُوْا عَنْ كَلَامِ الشَّارِعِ الْمَعْصُوْمِ وَ تَمَسَّكُوْا بِأَحَادِيْثَ مَوْضُوْعَةٍ وَ تَأْوِيْلَاتٍ فَاسِدَةٍ كَانَتْ سَبَبَ هَلَاكِهِمْ “”قصہ مختصر اگر تم چاہو کہ یہود کا نمونہ دیکھو تو ان علمائے سوء کو دیکھ لو جو دنیا طلب کر رہے ہیں اور پہلے لوگوں کی تقلید کے عادی ہو چکے ہیں، جنھوں نے کتاب و سنت کی صریح آیات و احادیث سے منہ موڑ لیا اور کسی عالم کے تکلف، اس کے تشدد اور اس کے استحسان کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے معصوم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے منہ موڑ لیا اور من گھڑت احادیث اور فاسد تاویلات سے چمٹ گئے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن گئیں۔“(الفوز الکبیر)
اور نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب یہ تھے، مسیح علیہ السلام کے بارے میں غلو، ان کو عین خدا یا تین میں سے ایک خدا کہنا، مریم علیھا السلام کو تین میں سے ایک خدا کہنا، مسیح علیہ السلام، مریم علیھا السلام اور صلیب کی پوجا کرنا، قبروں کو مسجدیں بنانا، احبار و رہبان کو رب بنانا وغیرہ۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وَاِنْ شِئْتَ أَنْ تَرَي نَمُوْذَجًا لِهٰذَا الْفَرِيْقِ فَانْظُرِ الْيَوْمَ اِلٰي أَوْلَادِ الْمَشَائِخِ الْأَوْلِيَاءِ مَاذَا يَظُنُّوْنَ بِآبَائِهِمْ؟ فَتَجِدُهُمْ قَدْ أَفْرَطُوْا فِيْ اِجْلَالِهِمْ كُلَّ الْاِفْرَاطِ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ “”اگر چاہو کہ اس گروہ کا نمونہ دیکھو تو بزرگ اولیاء کی آج کل کی اولاد کو دیکھ لو کہ وہ اپنے باپ دادا کے متعلق کیا گمان رکھتے ہیں، چنانچہ تم انھیں پاؤ گے کہ وہ ان کی بزرگی بیان کرتے ہیں، جتنا مبالغہ ہو سکے کرتے ہیں اور عنقریب وہ لوگ جان لیں گے جنھوں نے ظلم کیا کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔“(الفوز الکبیر)
➍ ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ کا ترجمہ عام طور پر کیا جاتا ہے: ”نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا“ مگر حقیقت یہ ہے کہ ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ میں لفظ ” غَيْرِ “ پچھلی آیت میں ” الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ سے بدل یا اس کی صفت ہے، یعنی ” الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ اور ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ دونوں ایک ہی لوگ ہیں، اس لیے ترجمہ یہ ہو گا: ”ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“
➎ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ” صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ کافی نہ تھا، پھر اس کے بعد ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ لانے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام تو اس کی ہر مخلوق پر بے شمار ہے، کم از کم اسے پیدا کرنا اور اس کی زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنا ہی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے یہ تعلیم دی کہ ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا کرو جن پر اللہ نے انعام کیا، مگر وہ غضب کا نشانہ نہیں بنے، نہ ہی وہ گمراہ ہیں، ایسے لوگ وہ چار گروہ ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔
➏ ” صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ میں انعام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے، جب کہ غضب اور ضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے ادب کی تعلیم ہے کہ اگرچہ خیر و شر دونوں کا خالق وہ ہے مگر شر کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاتی، کیونکہ اس کا ہر فعل خیر ہی خیر ہے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنھما «عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب سب لوگ ایک میدان میں کھڑے ہوں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو پکاریں گے: [ لَبَّيْكَ وَ سَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِيْ يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ اِلَيْكَ ][ مستدرک حاکم، تفسیر سورۃ بنی إسرائیل: 363/2، ح: ۳۳۸۴ ]”بار بار حاضر ہوں اور بار بار حاضر ہوں، خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے۔“ اسے حاکم نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ سورۂ کہف میں خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو کشتی توڑنے اور دوسرے دو واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اس ادب کا خاص خیال رکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں سورۂ کہف (۷۹ تا ۸۲) کی تفسیر۔
➐ سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد ”آمین“ کہنی چاہیے، اس کا معنی اے اللہ! قبول فرما، یا ایسے ہی کر دے ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید کا حصہ نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے قرآن مجید کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔ امام کے ” وَ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ کہنے پر امام اور مقتدی دونوں کو آمین کہنی چاہیے۔ مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنی چاہیے۔ اس کے متعلق چند احادیث درج کی جاتی ہیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ» کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا ”آمین“ کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گیا اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“[ بخاری، الأذان، باب جھر المأموم بالتأمین: ۷۸۲ ] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو گیا اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“[ بخاری، الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین: ۷۸۰۔ مسلم: ۴۱۰ ]
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام ” وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ کہے تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمھاری دعا قبول کر لے گا۔“[ مسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ: ۴۰۴ ] وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بلند آواز سے آمین کہی اور دائیں اور بائیں سلام پھیرا، یہاں تک کہ میں نے آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھ لی۔ [ أبوداوٗد، الصلٰوۃ، باب التأمین وراء الإمام: ۹۳۴، وقال الألبانی حسن صحیح ] وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ” وَ لَا الضَّآلِّيْنَ “ پڑھتے تو ”آمین“ کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ [ أبوداوٗد، باب التأمین وراء الإمام: ۹۳۳، وقال الألبانی صحیح ]
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ» پڑھا اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کیا۔ [ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی التأمین: ۲۴۸، وقال الألبانی صحیح ] عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودیوں نے تم پرکسی چیز میں وہ حسد نہیں کیا جو انھوں نے آمین کہنے اور سلام میں تم پر حسد کیا ہے۔“[ ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، باب الجھر بآمین: ۸۵۶۔ مسند أحمد: 134/6، ۱۳۵، ح: ۲۵۰۸۲، و قال الألبانی صحیح ]