(آیت5) ➊ اِيَّاكَ نَعْبُدُ: سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد غائب کے صیغے کے ساتھ کی گئی ہے، ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ اور اس کے بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے، اسے التفات کہتے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اسے اس کا قرب اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہو جاتا ہے، اب وہ براہِ راست خطاب کے صیغے سے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔
➋ عربی زبان میں جملہ فعلیہ کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے فعل، پھر فاعل اور اس کے بعد مفعول ہوتا ہے۔ اگر بعد والے لفظ کو پہلے لایا جائے تو اس سے کلام میں تخصیص یا حصر پیدا ہو جاتا ہے۔ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ اصل میں ”نَعْبُدُكَ“(ہم تیری عبادت کرتے ہیں) تھا۔ مفعول ”کاف ضمیر“ کو ” نَعْبُدُ “ سے پہلے لایا گیا تو ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ ہو گیا، جس سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، یعنی ہم تیری عبادت کرتے ہیں، کسی اور کی نہیں کرتے۔ اس مفہوم کو ”ہم صرف تیری عبادت“ یا ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بعینہ ”لا الٰہ الا اللہ“ کا مفہوم ہے، یعنی عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں۔
➌ عبادت کا معنی کسی کو غیبی طاقتوں کا مالک سمجھ کر اس سے انتہائی درجے کی محبت کے ساتھ اس کے سامنے انتہائی درجے کی عاجزی، ذلت اور خوف ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اسلام نے بندوں کو ایسی ہر غلامی سے آزادی دلا کر صرف ایک ذات پاک کا بندہ اور عبد بنا دیا جو انھیں پیدا کرنے والی اور ان کی پرورش کرنے والی ہے۔ عبادت صرف اس کی ہے، اس کے ساتھ کسی کو نہ شریک کرنا جائز ہے نہ اس کی محبت جیسی محبت یا اس کے خوف جیسا خوف کسی سے جائز ہے۔افسوس کہ بعض مسلمان اللہ کے گھر میں داخل ہوتے یا نکلتے وقت اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام نہیں ہوتے جتنے وہ کسی قبر پر یا کسی پیر کے پاس جاتے یا واپس آتے وقت ہوتے ہیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کے عہد و اقرار کے بعد کسی دوسرے کی بندگی اللہ تعالیٰ سے سب سے بڑی غداری ہے، جسے وہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۱۶) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کی قدر اس طرح نہیں کی جیسے اس کی قدر کا حق ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۹۱)، حج (۷۴) اور زمر (۶۷)۔
➍ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ: ” نَسْتَعِيْنُ “”عَوْنٌ“ میں سے باب استفعال فعل مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے، جو اصل میں ”نَسْتَعْوِنُ“ تھا۔ اس میں بھی ” اِيَّاكَ “ پہلے آنے کی وجہ سے حصر ہے، یعنی ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، کسی دوسرے سے نہیں۔ یہاں سے بندے کی درخواست شروع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قبول ہو چکی۔
➎ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کو پہلے اور ” اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ کو بعد میں ذکر کرکے دعا کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ درخواست سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا اور تمجید، پھر اپنی بندگی اور اپنے تعلق کا حوالہ پیش کرو، یعنی اپنے عمل کے وسیلے سے درخواست کرو۔ یہ وسیلہ حق ہے، جیسا کہ فرمایا: «رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ»[ آل عمران: ۱۹۳ ]”اے ہمارے رب! بے شک ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا، جو ایمان کے لیے آواز دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آئو تو ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب! پس ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کر۔“ صحیح بخاری (۳۴۶۵) میں غار میں پھنسنے والے تین آدمیوں کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص سے کیے ہوئے اعمال کے وسیلے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ البتہ کسی شخص کا نام لے کر اس کی ذات یا اس کی حرمت وغیرہ کے وسیلے سے دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں، مثلاً یہ کہنا کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے یا طفیل یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول کر۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۷) «فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ» کی تفسیر۔
➏ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کے بعد ” وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ لانے میں یہ سبق بھی ہے کہ آدمی یقین رکھے کہ وہ کوئی بھی نیکی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتا اور مکمل طور پر اللہ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہونے کا عقیدہ رکھے اور اس کا اظہار و اقرار بھی کرے۔ یعنی ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری عبادت میں اور اپنے تمام کاموں میں تیری ہی مدد مانگتے ہیں، تیری مدد کے بغیر نہ ہم تیری عبادت کر سکتے ہیں نہ کچھ اور۔ اس لفظ میں اللہ پر توکل اور اپنے تمام کام اس کے سپرد کرنے کی اعلیٰ ترین تعلیم دی گئی ہے۔ بعض سلف نے فرمایا، فاتحہ قرآن کا خلاصہ ہے اور «اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ» فاتحہ کا خلاصہ ہے۔ کیونکہ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کہنے سے انسان شرک سے بری ہو جاتا ہے اور ” وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ کہنے سے وہ اپنی قوت و طاقت اور اختیار سے خالی ہو کر صرف اللہ پر توکل و اعتماد کا اقرار و اظہار کرتا ہے۔
➐ اس استعانت سے مراد ان کاموں میں مدد طلب کرنا ہے جن کا اختیار اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس رکھا ہے، کسی مخلوق کو ان کا اختیار نہیں دیا، مثلاً معالج دوا دے سکتا ہے مگر شفا صرف اللہ کے پاس ہے۔ کوئی صاحب خیر کچھ روپے پیسے دے سکتا ہے مگر غنی یا فقیر کر دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ طبیب علاج کر سکتا ہے مگر اولاد سے نوازنا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ فوج، آدمیوں اور اسلحے سے ایک دوسرے کی مدد ہو سکتی ہے مگر فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ غرض دنیا کے ظاہری اسباب و وسائل جو انسانوں کو عطا کیے گئے ہیں ان میں ایک دوسرے سے مدد مانگنا بھی جائز ہے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی لازم ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى» [ المائدۃ: ۲ ]”نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔“ افسوس کہ بعض لوگ ان ہستیوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں جو سنتی ہی نہیں، نہ پاس موجود ہوتی ہیں اور ایسی چیزوں کی مدد مانگتے ہیں جو اگر وہ زندہ ہوں یا سن رہی ہوں تب بھی ان کے اختیار میں نہیں۔ کتنا ظلم ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ” اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “(صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں) کا اقرار کرتے ہیں، پھر غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں، مثلاً ”يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! اَغِثْنِيْ“(اے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے) اے مولا علی، اے شیر خدا! میری کشتی پار لگا دینا، المدد یا غوث اعظم، مدد کن یا معین الدین چشتی۔ غرض صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے عہد و اقرار کے بعد غیروں کو رب تعالیٰ کا شریک بنا کر انھیں رب کے اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں اور ان سے استغاثہ و استعانت کرتے ہیں۔
➑ یہاں ایک سوال ہے کہ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ سے آخر فاتحہ تک دعا کرنے والا جمع کے صیغے سے دعا کرتا ہے، جب کہ دعا کرنے والا ایک ہے، اس لیے واحد کا صیغہ ہونا چاہیے تھا، اگر جمع کا لفظ تعظیم کے لیے مانا جائے تو یہ دعا کے مناسب نہیں ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ بندہ اپنی انتہائی تواضع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عالی بارگاہ میں اپنی درخواست اکیلا پیش کرنے کی جرأت نہیں کرتا، بلکہ تمام عبادت کرنے والے جن و انس اور فرشتوں کے ساتھ مل کر پیش کرتا ہے کہ ہم سب (جن میں تیرا یہ عاجز بندہ بھی ہے) تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
بعض اہل علم نے یہ حکمت بیان فرمائی کہ جمع کے صیغے میں ایک لطیف تواضع پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ واحد کے صیغے میں اپنی کچھ بڑائی کا اظہار ہوتا ہے جو جمع کے صیغے میں نہیں ہے۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی کہ ہر مومن دوسرے مومنوں کے ساتھ ایک جسم کی مانند ہے اور ہر مومن تمام مومنوں کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے وہ اکیلا ہی تمام مسلمانوں کی طرف سے عرض کرتا ہے کہ ہم سب صرف تیری تعریف کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلْمُؤْمِنُوْنَ تَتَكَافَأُ دِمَاءُ هُمْ وَ يَسْعٰی بِذِمَّتِهِمْ اَدْنَاهُمْ وَ هُمْ يَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاهُمْ ]”ایمان والے لوگ، ان کے خون آپس میں برابر ہوتے ہیں، ان کا سب سے معمولی آدمی بھی ان کے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔“[ أبوداوٗد، الدیات، باب أیقاد المسلم من الکافر؟: ۴۵۳۰، وقال الألبانی حسن صحیح ]
➒ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ عبادت و استعانت کی بہترین صورت اجتماعی عبادت و استعانت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی جامع صورت نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا: «وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ»[ البقرۃ: ۴۳ ]”اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“
➓ ” اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ میں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس کام کے لیے مدد مانگتے ہیں، تاکہ وہ عام رہے، مقصد یہ ہے کہ ہر کام میں تیری مدد مانگتے ہیں۔