مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی سی طاری ہو گئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا، یا لوگوں کے اس سوال پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس لیے مسکرائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری“ پھر آپ نے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر اس پوری سورت «إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ» * «فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ» * «إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ»[108-الکوثر:1-2-3] کی تلاوت کی اور فرمایا: ”جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا: ”وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئے گی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا، اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں“۔ [صحیح مسلم:400]
اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے ۔ [صحیح مسلم:2301]
نسائی کی حدیث میں ہے یہ واقعہ مسجد میں گزرا ۔ [سنن نسائی:905،قال الشيخ الألباني:صحيح]
اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ» ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے۔
مسند کی اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ”مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں“۔ [مسند احمد:152/3:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون سی نہر ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھی ہے ۔ [صحیح بخاری:4964] اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورۃ اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا: وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے، آپ نے فرمایا: ”کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں“ ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38174:اسناد قوی]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے؟ اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا ۔ [مسند احمد:221/3:صحیح]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:321/30]
ایک منقطع سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:321/30:ضعیف و منقطع] «وَاللهُ اَعْلَمُ»
صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو سعید نے فرمایا: وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں۔ اور بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو۔
«کوثر» ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں نبوت، قرآن، ثواب، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سنداً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے ۔ [مسند احمد:87/2:صحیح] امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتاتے ہیں۔
ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ! وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ اسے جزو جسم بنائے، اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کر چکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی ابوعمارہ نے کہا تھا، آپ نے فرمایا: ”ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38183] اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہو چکی ہے، بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے۔
پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پرشوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصاً نفل فرض نماز اور قربانی اسی «وحدہ لا شریک لہ» کے نام کی کرتے رہو۔
جیسے فرمایا «قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» * «لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ»[6-الأنعام:162-163] مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے۔ مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو۔
اور جگہ ہے «وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ»[6-الأنعام:121] الخ یعنی ” جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو «فسق» ہے “
اور کہا گیا ہے کہ مراد «وانحر» سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے، شعبی رحمہ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ ابو جعفر باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع یدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں۔
ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب یہ سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری تو آپ نے فرمایا: ”اے جبرائیل «وانحر» سے مراد کیا ہے؟ جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے“، تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا آپ کو حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کرنا ہے ۔ [مستدرک حاکم:538/2:اسناد ضعیف جدا والمتن باطل] یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے۔
عطاء خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وانحر» سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو۔ (ابن ابی حاتم) یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد «نحر» سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے ”جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کر لیا اس کی قربانی نہیں ہوئی“، ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہو گی، آپ نے فرمایا: ”بس وہ تو کھانے کا گوشت ہو گیا“ صحابی نے کہا: اچھا، یا رسول اللہ! اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہو گا آپ نے فرمایا: ”ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا“۔ [صحیح بخاری:955]
امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر، اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر، اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر، اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے۔ محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی! تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بے برکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے، اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابومعیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے۔ بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکے میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے، تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے۔
عطا فرماتے ہیں ابولہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ بدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد کی نسل کٹ گئی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی «ابتر» کے معنی ہیں، تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مر جاتے تو کہتے ہیں «ابتر» نبی علیہ السلام کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ «ابتر» وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا «حاشا و کلا» اللہ تعالیٰ آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالآباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کر دی گئی ہے، آپ کا پیارا اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہے گا، بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہے گی، اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بےحد و بکثرت بھیجتا رہے۔ «آمین»
«الحمداللہ» اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورۃ الکوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ «وللہ الحمد والمنہ»