تفسير ابن كثير



نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے، یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے، اس کا حق مارتا ہے، اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا، مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا۔

جیسے اور جگہ ہے «كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ» * «وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ» [89-الفجر:17-18] ‏‏‏‏ یعنی ” جو برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو“ یعنی اس فقیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو۔

پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے «ویل» ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابوالضحی کہتے ہیں۔

عطاء بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں «عَن صَلَاتِهِمْ» ہے «فِیْ صَلاَتِهِمْ» نہیں، یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا، نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا، اسی طرح یہ لفظ شامل ہے، ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشوع و خضوع اور تدبر و غور وفکر نہ کرے، لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ «ویل» والا ہے اور نفاق عملی کا حقدار ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: یہ نماز منافق کی ہے، یہ نماز منافق کی ہے، یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے، تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے ۔ [صحیح مسلم:622] ‏‏‏‏

یہاں مراد عصر کی نماز ہے جو «صلوة وسطيٰ» ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشوع و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکساں ہے۔

انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا» [4-النساء:142] ‏‏‏‏ یعنی ” منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز پڑھتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں“۔ یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں۔

طبرانی کی حدیث میں ہے «ویل» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ «ویل» اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے ۔ [طبرانی کبیر:12803:ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کرے گا اور اسے ذلیل و حقیر کرے گا ۔ [مسند احمد:212/2:صحیح] ‏‏‏‏

ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلیٰ موصلی کی یہ حدیث ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے، آپ نے فرمایا: تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا [سنن ابن ماجہ:4226،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ‏‏‏‏ ابن مبارک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسناد غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے۔

ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38055:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38034:ضعیف مرفوعا] ‏‏‏‏ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں، دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے۔

ایک موقوف روایت میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع تو ضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کم قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں۔

پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے «مَاعُونَ» کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی، اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی، امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے، زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ماعون» ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال، پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ۔

دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38130] ‏‏‏‏

نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیک چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں «ماعون» سے تعبیر کرتے تھے ۔ [سنن ابوداود:1657،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں، چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال، پھاؤڑا، پتیلی، دیگچی وغیرہ۔

ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: «ماعون» سے منع کرنا انہوں نے پوچھا: «ماعون» کیا؟ فرمایا: پتھر، لوہا، پانی انہوں نے پوچھا: لوہے سے مراد کون سا لوہا ہے؟ فرمایا: یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا: پتھر سے کیا مراد؟ فرمایا: یہی دیگچی وغیرہ ۔ [الدرالمنشور للسیوطی:684/6:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں۔

علی نمیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا: مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور «ماعون» کا انکار نہ کرے، میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! «ماعون» کیا؟ فرمایا: پتھر، لوہا اور اسی جیسی اور چیزیں ۔ [اسدالغابۃ:127/4:ضعیف] ‏‏‏‏۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

«الحمداللہ» تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.