امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان مختلف احادیث میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ یہ سوالوں کا جواب ہے کسی نے کہا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں تو آپ نے فرما دیا ”ہاں حقیقت یہ ہے کہ لیلۃ القدر مقرر ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔“
امام ترمذی نے امام شافعی کا اسی معنی کا قول نقل کیا ہے ابوقلابہ فرماتے ہیں کہ آخری عشرے کی راتوں میں یہ پھیر بدل ہوا کرتی ہے۔ امام مالک، امام ثوری، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، ابوثور مزنی، ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی قاضی نے یہی نقل کیا ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس قول کی تھوڑی بہت تائید بخاری و مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں لیلۃ القدر رمضان کی سات پچھلی راتوں میں دکھائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب اس بارے میں موافق ہیں ہر طلب کرنے والے کو چاہیئے کہ لیلۃ القدر کو ان سات آخری راتوں میں تلاش کرے“۔ [صحیح بخاری:2015]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کی جستجو کرو“۔ [صحیح بخاری:2020]
امام شافعی رحمہ اللہ کے اس فرمان پر کہ لیلۃ القدر ہر رمضان میں ایک معین رات ہے اور اس کا ہیر پھیر نہیں ہوتا یہ حدیث دلیل بن سکتی ہے جو صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے (کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے) نکلے۔ دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے کے لیے آیا تھا لیکن فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے وہ اٹھا لی گئی اور ممکن ہے کہ اسی میں تمہاری بہتری ہو اب اسے نویں ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو ۔ [صحیح بخاری:2023]
وجہ دلالت یہ ہے کہ اگر اس کا تعین ہمیشہ کے لیے نہ ہوتا تو ہر سال کی لیلۃ القدر کا علم حاصل نہ ہوتا اگر لیلۃ القدر کا تغیر و تبدل ہوتا رہتا تو صرف اس سال کے لیے تو معلوم ہو جاتا کہ فلاں رات ہے لیکن اور برسوں کے لیے تعین نہ ہوتی۔
ہاں یہ ایک جواب اس کا ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی سال کی اس مبارک رات کی خبر دینے کے لیے تشریف لائے تھے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑائی جھگڑا خیر و برکت اور نفع دینے والے علم کو غارت کر دیتا ہے ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے گناہ کے باعث اللہ کی روزی سے محروم رکھ دیا جاتا ہے ۔ [سنن ابن ماجه:4022،قال الشيخ الألباني:حسن دون الجملة]
یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اٹھالی گئی، اس سے مراد اس کے تعین کے علم کا اٹھا لیا جانا ہے نہ یہ کہ بالکل لیلۃ القدر ہی دنیا سے اٹھا لی گئی جیسے کہ جاہل شیعہ کا قول ہے اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ اس لفظ کے بعد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے نویں، ساتویں اور پانچویں میں ڈھونڈو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ممکن ہے اسی میں تمہاری بہتری ہو، یعنی اس کی مقررہ تعین کا علم نہ ہونے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ مبہم ہے تو اس کا ڈھونڈنے والا جن جن راتوں میں اس کا ہونا ممکن دیکھے گا ان تمام راتوں میں کوشش و خلوص کے ساتھ عبادت میں لگا رہے گا۔ بخلاف اس کے کہ معلوم ہو جائے کہ فلاں رات ہی ہے تو وہ صرف اسی ایک رات کی عبادت کرے گا کیونکہ ہمتیں پست ہیں اس لیے حکمت حکیم کا تقاضا یہی ہوا کہ اس رات کے تعین کی خبر نہ دی جائے تاکہ اس رات کے پا لینے کے شوق میں اس مبارک مہینہ میں جی لگا کر اور دل کھول کر بندے اپنے معبود برحق کی بندگی کریں اور آخری عشرے میں تو پوری کوشش اور خلوص کے ساتھ عبادتوں میں مشغول رہیں۔
اسی لیے خود محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے انتقال تک رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے۔ [صحیح بخاری:2026]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ [صحیح بخاری:2025]
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری دس راتیں رمضان شریف کی رہ جاتیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر کس لیتے ۔ [صحیح بخاری:2024]
مسلم شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں میں جس محنت کے ساتھ عبادت کرتے اتنی محنت سے عبادت آپ کی اور دنوں میں نہیں ہوتی تھی ۔ [صحیح مسلم:1175]
یہی معنی ہیں اوپر والی حدیث کے اس جملہ کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند مضبوط باندھ لیا کرتے، یعنی کمر کس لیا کرتے، یعنی عبادت میں پوری کوشش کرتے، گو اس کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں سے نہ ملتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی باتیں مراد ہوں یعنی بیویوں سے ملنا بھی ترک کر دیتے تھے اور عبادت کی مشغولی میں بھی کمر باندھ لیا کرتے تھے۔
چنانچہ مسند احمد کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ باقی رہ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند مضبوط باندھ لیتے اور عورتوں سے الگ رہتے ۔ [مسند احمد:67/6:صحیح دون الجملة]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کی یکساں جستجو کرے کسی ایک رات کو دوسری رات پر ترجیح نہ دے۔“[شرح رافعی]
یہ بھی یاد رہے کہ یوں تو ہر وقت دعا کی کثرت مستحب ہے لیکن رمضان میں اور زیادتی کرے اور خصوصاً آخری عشرے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں اس دعا کو بکثرت پڑھے «اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي»، اللہ تو درگزر کرنے والا اور درگزر کو پسند فرمانے والا ہے مجھ سے بھی درگزر فرما۔ [مسند احمد:183/6:صحیح]
مسند احمد میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر مجھے لیلۃ القدر مل جائے تو میں کیا دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا «اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي» بتائی یہ حدیث ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ [سنن ابن ماجه:3850،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں مستدرک حاکم میں بھی یہ مروی ہے اور امام حاکم اسے شرط بخاری و مسلم پر صحیح بتاتے ہیں۔
ایک عجیب و غریب اثر جس کا تعلق لیلۃ القدر سے ہے، امام ابو محمد بن ابوحاتم رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں، اس سورت کی تفسیر میں، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے اس روایت کے ساتھ وارد کیا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ جو ساتویں آسمان کی حد پر جنت سے متصل ہے جو دنیا اور آخرت کے فاصلہ پر ہے اس کی بلندی جنت میں ہے، اس کی شاخیں اور ڈالیں کرسی تلے ہیں، اس میں اس قدر فرشتے ہیں جن کی گنتی اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اس کی ہر ایک شاخ پر بےشمار فرشتے ہیں، ایک بال برابر بھی جگہ ایسی نہیں جو فرشتوں سے خالی ہو، اس درخت کے بیچوں بیچ جبرائیل علیہ السلام کا مقام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل کو آواز دی جاتی ہے کہ اے جبرائیل! لیلۃ القدر میں اس درخت کے تمام فرشتوں کو لے کر زمین پر جاؤ یہ کل کے کل فرشتے رافت و رحمت والے ہیں جن کے دلوں میں ہر ہر مومن کے لیے رحم کے جذبات موجزن ہیں سورج غروب ہوتے ہی یہ کل کے کل فرشتے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ لیلۃ القدر میں اترتے ہیں، تمام روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں، ہر ہر جگہ پر سجدے میں قیام میں مشغول ہو جاتے ہیں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ ہاں گرجا گھر میں، مندر میں، آتش کدے میں، بت خانے میں، غرض اللہ کے سوا اوروں کی جہاں پرستش ہوتی ہے وہاں تو یہ فرشتے نہیں جاتے اور ان جگہوں میں بھی جن میں تم گندی چیزیں ڈالتے ہو اور اس گھر میں بھی جہاں نشے والا شخص ہو یا نشہ والی چیز ہو یا جس گھر میں کوئی بت گڑا ہوا ہو یا جس گھر میں باجے گاجے گھنٹیاں ہوں یا مجسمہ ہو یا کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ ہو وہاں تو یہ رحمت کے فرشتے جاتے نہیں باقی چپے چپے پر گھوم جاتے ہیں اور ساری رات مومن مردوں عورتوں کے لیے دعائیں مانگنے میں گزارتے ہیں جبرائیل علیہ السلام تمام مومنوں سے مصافحہ کرتے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ روئیں جسم پر کھڑے ہو جائیں دل نرم پڑ جائے آنکھیں بہہ نکلیں اس وقت آدمی کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس وقت میرا ہاتھ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے۔
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص اس رات میں تین مرتبہ «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» پڑھے اس کی پہلی مرتبہ کے پڑھنے پر گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے دوسری مرتبہ کے کہنے پر آگ سے نجات مل جاتی ہے تیسری مرتبہ کے کہنے پر جنت میں داخل ہو جاتا ہے , راوی نے پوچھا کہ اے ابواسحاق جو اس کلمہ کو سچائی سے کہے اس کے؟ فرمایا: یہ تو نکلے گا ہی اس کے منہ سے جو سچائی سے اس کا کہنے والا ہو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ لیلۃ القدر کافر و منافق پر تو اتنی بھاری پڑتی ہے کہ گویا اس کی پیٹھ پر پہاڑ آ پڑا۔
غرض فجر ہونے تک فرشتے اسی طرح رہتے ہیں پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام چڑھتے ہیں اور بہت اونچے چڑھ کر اپنے پروں کو پھیلا دیتے ہیں بالخصوص ان دو سبز پروں کو جنہیں اس رات کے سوا وہ کبھی نہیں پھیلاتے یہی وجہ ہے کہ سورج کی تیزی ماند پڑ جاتی ہے اور شعائیں جاتی رہتی ہیں پھر ایک ایک فرشتے کو پکارتے ہیں اور سب کے سب اوپر چڑھتے ہیں پس فرشتوں کا نور اور جبرائیل علیہ السلام کے پروں کا نور مل کر سورج کو ماند کر دیتا ہے اس دن سورج متحیر رہ جاتا ہے جبرائیل اور یہ سارے کے سارے بےشمار فرشتے اس دن آسمان و زمین کے درمیان مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش طلب کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ روزے رکھنے والوں کے لیے اور ان لوگوں کے لیے بھی جن کا یہ خیال رہا کہ اگلے سال بھی اگر اللہ نے زندگی رکھی تو رمضان کے روزے عمدگی کے ساتھ پورے کریں گے یہی دعائیں مانگتے رہتے ہیں شام کو دنیا کے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں وہاں کے تمام فرشتے حلقے باندھ باندھ کر ان کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت کے بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں اور یہ جواب دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کو امسال تم نے کس حالت میں پایا تو یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال تو ہم نے اسے عبادتوں میں پایا تھا لیکن اس سال تو وہ بدعتوں میں مبتلا تھا اور فلاں شخص گزشتہ سال بدعتوں میں مبتلا تھا لیکن اس سال ہم نے اسے سنت کے مطابق عبادتوں میں پایا پس یہ فرشتے اس سے پہلے شخص کے لیے بخشش کی دعائیں مانگنی موقوف کر دیتے ہیں اور اس دوسرے شخص کے لیے شروع کر دیتے ہیں اور یہ فرشتے انہیں سناتے ہیں کہ فلاں فلاں کو ہم نے ذکر اللہ میں پایا اور فلاں کو رکوع میں اور فلاں کو سجدے میں اور فلاں کو کتاب اللہ کی تلاوت میں غرض ایک رات دن یہاں گزار کر دوسرے آسمان پر جاتے ہیں یہاں بھی یہی ہوتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ میں اپنی اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں اس وقت سدرۃ المنتہیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ مجھ میں بسنے والو! میرا بھی تم پر حق ہے میں بھی ان سے محبت رکھتا ہوں جو اللہ سے محبت رکھیں ذرا مجھے بھی تو لوگوں کی حالت کی خبر دو اور ان کے نام بتاؤ۔
سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”اب فرشتے اس کے سامنے گنتی کر کے اور ایک ایک مرد و عورت کا مع ولدیت کے نام بتاتے ہیں پھر جنت سدرۃ المنتہیٰ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھتی ہے کہ تجھ میں رہنے والے فرشتوں نے جو خبریں تجھے دی ہیں مجھ سے بھی تو بیان کر چنانچہ سدرہ اس سے ذکر کرتا ہے یہ سن کر وہ کہتی ہے اللہ کی رحمت ہو فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ انہیں جلدی مجھ سے ملا۔
جبرائیل علیہ السلام سب سے پہلے اپنی جگہ پہنچ جاتے ہیں انہیں الہام ہوتا ہے اور یہ عرض کرتے ہیں پروردگار میں نے تیرے فلاں فلاں بندوں کو سجدے میں پایا تو انہیں بخش، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے انہیں بخشا۔ جبرائیل علیہ السلام اسے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کو سناتے ہیں پھر سب کہتے ہیں فلاں فلاں مرد و عورت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور مغفرت ہوئی پھر جبرائیل علیہ السلام خبر دیتے ہیں کہ باری تعالیٰ فلاں شخص کو گزشتہ سال تو عامل سنت اور عابد چھوڑا تھا لیکن امسال تو بدعتوں میں پڑ گیا اور تیرے احکام سے روگردانی کر لی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے جبرائیل اگر یہ مرنے سے تین ساعت پہلے بھی توبہ کر لے گا تو میں اسے بخش دوں گا۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام بےساختہ کہہ اٹھتے ہیں اللہ تیرے ہی لیے سب تعریفیں سزاوار ہیں الٰہی تو اپنی مخلوق پر سب سے زیادہ مہربان ہے بندوں پر تیری مہربانی خود ان کی مہربانی سے بھی بڑھی ہوئی ہے۔ اس وقت عرش اور اس کے آس پاس کی چیزیں پردے اور تمام آسمان جنبش میں آ جاتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں «الْحَمْدُ لِلَّهِ الرَّحِيمِ»، «الْحَمْدُ لِلَّهِ الرَّحِيمِ» ۔
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ”جو شخص رمضان شریف کے روزے پورے کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ رمضان کے بعد بھی میں گناہوں سے بچتا رہوں گا وہ بغیر سوال و جواب کے اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو گا۔“
سورۃ لیلۃ القدر کی تفسیر «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ختم ہوئی۔