اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر اگلی امتوں میں بھی تھی یا صرف اسی امت کو خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ پس ایک حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نظریں ڈالیں اور یہ معلوم کیا کہ سابقہ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال گزرا کہ میری امت کی عمریں ان کے مقابلہ میں کم ہیں تو نیکیاں بھی کم رہیں گیں اور پھر درجات اور ثواب میں بھی کمی رہیں گی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رات عنایت فرمائی اور اس کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ دینے کا وعدہ فرمایا ۔ [مؤطا:321/1:مرسل]
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی امت کو یہ رات دی گئی ہے بلکہ صاحب عدۃ نے جو شافعیہ میں سے ایک امام ہیں جمہور علماء کا یہی قول نقل کیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور خطابی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے لیکن ایک اور حدیث ہے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ رات جس طرح اس امت میں ہے، اگلی امتوں میں بھی تھی، چنانچہ مرثد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے لیلۃ القدر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سوال کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: سنو! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر باتیں دریافت کرتا رہتا تھا ایک مرتبہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو فرمائیے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہے یا اور مہینوں میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں۔“ میں نے کہا: اچھا یا رسول اللہ! یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہی ہے کہ جب تک وہ ہیں یہ بھی ہے جب انبیاء علیہم السلام قبض کئے جاتے ہیں تو یہ اٹھ جاتی ہیں یا یہ قیامت تک باقی رہیں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”نہیں وہ قیامت تک باقی رہے گی“، میں نے کہا: اچھا رمضان کے کس حصہ میں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے رمضان کے پہلے اور آخری عشرہ میں ڈھونڈ۔“ پھر میں خاموش ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور باتوں میں مشغول ہو گئے۔ میں نے پھر موقع پا کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ! ان دونوں عشروں میں سے کس عشرے میں اس رات کو تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری عشرے میں، بس کچھ نہ پوچھنا۔“ میں پھر چپکا ہو گیا لیکن پھر موقعہ پا کر میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کی قسم ہے میرا بھی کچھ حق آپ پر ہے فرما دیجئیے کہ وہ کون سی رات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے ہوئے میں نے تو کبھی آپ کو اپنے اوپر اتنا غصہ ہوتے ہوئے دیکھا ہی نہیں اور فرمایا: ”آخری ہفتہ میں تلاش کرو، اب کچھ نہ پوچھنا“۔ [مسند احمد:171/5:ضعیف]
یہ روایت نسائی میں بھی مروی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات اگلی امتوں میں بھی تھی، اور اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قیامت تک ہر سال آتی رہے گی۔
بعض شیعہ حضرات کا قول ہے کہ یہ رات بالکل اٹھ گئی، یہ قول غلط ہے ان کو غلط فہمی اس حدیث سے ہوئی ہے جس میں ہے کہ وہ اٹھا لی گئی اور ممکن ہے کہ تمہارے لیے اسی میں بہتری ہو یہ حدیث پوری بھی آئے گی۔
مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ ہے کہ اس رات کی تعین اور اس کا تقرر بھی اٹھ گیا، نہ یہ کہ سرے سے لیلۃ القدر ہی اٹھ گئی مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رات رمضان شریف میں آتی ہے کسی اور مہینہ میں نہیں۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور علماء کوفہ کا قول ہے کہ سارے سال میں ایک رات ہے اور ہر مہینہ میں اس کا ہو جانا ممکن ہے۔ یہ حدیث اس کے خلاف ہے سنن ابوداؤد میں باب ہے کہ اس شخص کی دلیل جو کہتا ہے لیلۃ القدر سارے رمضان میں ہے۔ پھر حدیث لائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے رمضان میں ہے ۔ [سنن ابوداود:1387،قال الشيخ الألباني:ضعیف و الصحیح موقوف] اس کی سند کے کل راوی ثقہ ہیں یہ موقوف بھی مروی ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ ”رمضان المبارک کے سارے مہینہ میں اس رات کا ہونا ممکن ہے“ غزالی رحمہ اللہ نے اسی کو نقل کیا ہے لیکن رافعی رحمہ اللہ اسے بالکل غریب بتلاتے ہیں۔