ابن ابی حاتم میں ہے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں ہتھیار بند رہا مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب معلوم ہوا تو اللہ عزوجل نے یہ سورت اتاری کہ لیلۃ القدر کی عبادت اس شخص کی ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے۔ [بیہقی فی السنن:306/4:ضیعف و مرسل]
ابن جریر میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات کو قیام کرتا تھا صبح تک اور دن میں دشمنان دین سے جہاد کرتا تھا شام تک ایک ہزار مہینے تک یہی کرتا رہا پس اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمایا کہ اس امت کے کسی شخص کا صرف لیلۃ القدر کا قیام اس عابد کی ایک ہزار مہینے کی اس عبادت سے افضل ہے۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابدوں کا ذکر کیا جنہوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے نافرمانی نہیں کی تھی ایوب علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، حزقیل بن عجوز، یوشع بن نون علیہم السلام“، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تعجب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت نے اس جماعت کی اس عبادت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی افضل چیز آپ پر نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ افضل ہے اس سے جن پر آپ اور آپ کی امت نے تعجب ظاہر کیا تھا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم بے حد خوش ہوئے ۔ [باطل لا اصل لہ فی المرفوع]
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزار مہینوں کے روزے اور نماز سے افضل ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو“ اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے کہ ”وہ ایک ہزار مہینے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو“ یہی ٹھیک ہے اس کے سوا اور کوئی قول ٹھیک نہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات کی جہاد کی تیاری اس کے سوا ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ۔ [مسند احمد:75/1:حسن]
اسی طرح اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اچھی نیت اور اچھی حالت سے جمعہ کی نماز کے لیے جائے اس کے لیے ایک سال کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے سال بھر کے روزوں کا اور سال بھر کی نمازوں کا ۔ [سنن ترمذي:496،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اسی طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں پس مطلب یہ ہے کہ مراد ایک ہزار مہینے سے وہ مہینے ہیں جن میں لیلۃ القدر نہ آئے جیسے ایک ہزار راتوں سے مراد وہ راتیں ہیں جن میں کوئی رات اس عبادت کی نہ ہو اور جیسے جمعہ کی طرف جانے والے کو ایک سال کی نیکیاں یعنی وہ سال جس میں جمعہ نہ ہو۔
مسند احمد میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو تم پر رمضان کا مہینہ آ گیا یہ بابرکت مہینہ آ گیا اس کے روزے اللہ نے تم پر فرض کیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس کی بھلائی سے محروم رہنے والا حقیقی بد قسمت ہے“۔ [مسند احمد230/2:صحیح]
نسائی شریف میں بھی یہ روایت ہے چونکہ اس رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے اس لیے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لیلۃ القدر کا قیام ایمانداری اور نیک نیتی سے کرے اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں“۔ [صحیح بخاری:2014]
پھر فرماتا ہے کہ اس رات کی برکت کی زیادتی کی وجہ سے بکثرت فرشتے اس میں نازل ہوتے ہیں۔ فرشتے تو ہر برکت اور رحمت کے ساتھ نازل ہوتے رہتے ہیں جیسے تلاوت قرآن کے وقت اترتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں کو گھیر لیتے ہیں اور علم دین کے سیکھنے والوں کے لیے راضی خوشی اپنے پر بچھا دیا کرتے ہیں اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں «روح» سے مراد یہاں جبرائیل علیہ السلام ہیں، یہ خاص کا عطف ہے عام پر۔
بعض کہتے ہیں «روح» کے نام کے ایک خاص قسم کے فرشتے ہیں جیسے کہ سورۃ «عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ»[78-النبأ:1] کی تفسیر میں تفصیل سے گزر چکا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر فرمایا وہ سراسر سلامتی والی رات ہے جس میں شیطان نہ تو برائی کر سکتا ہے نہ ایذاء پہنچا سکتا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ”اس میں تمام کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے عمر اور رزق مقدر کیا جاتا ہے۔“
جیسے اور جگہ ہے «فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ»[44-الدخان:4] یعنی ” اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے “۔
شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس رات میں فرشتے مسجد والوں پر صبح تک سلام بھیجتے رہتے ہیں۔“
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فضائل اوقات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک غریب اثر فرشتوں کے نازل ہونے میں اور نمازیوں پر ان کے گزرنے میں اور انہیں برکت حاصل ہونے میں وارد کیا ہے۔
ابن ابی حاتم میں کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک عجیب و غریب بہت طول طویل اثر وارد کیا ہے جس میں فرشتوں کا سدرۃ المنتہیٰ سے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ زمین پر آنا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے دعائیں کرنا وارد ہے۔
ابوداؤد طیالسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لیلۃ القدر ستائیسویں ہے یا انتیسویں اس رات میں فرشتے زمین پر سنگریزوں کی گنتی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ [مسند طیالسی:2545:حسن]
عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اس رات میں ہر امر سے سلامتی ہے یعنی کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوتی۔“
قتادہ رحمہ اللہ اور ابن زید رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”یہ رات سراسر سلامتی والی ہے کوئی برائی صبح ہونے تک نہیں ہوتی۔“
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”لیلۃ القدر آخری دس راتوں میں ہے جو ان میں طلب ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”یہ رات بالکل صاف اور ایسی روشن ہوتی ہے کہ گویا چاند چڑھا ہوا ہے اس میں سکون اور دلجمعی ہوتی ہے، نہ سردی زیادہ ہوتی ہے، نہ گرمی، صبح تک ستارے نہیں جھڑتے ایک نشانی اس کی یہ بھی ہے کہ اس صبح کو سورج تیز شعاؤں کے ساتھ نہیں نکلتا بلکہ وہ چودہویں رات کی طرح صاف نکلتا ہے۔ اس دن اس کے ساتھ شیطان بھی نہیں نکلتا ۔ [مسند احمد:323/5:حسن] یہ اسناد تو صحیح ہے لیکن متن میں غرابت ہے۔
اور بعض الفاظ میں نکارت بھی ہے اور ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”لیلۃ القدر صاف پر سکون سردی گرمی سے خالی رات ہے اس کی صبح مدھم روشنی والا سرخ رنگ نکلتا ہے“۔ [مسند طیالسی:2680:صحیح]
ابوعاصم نبیل اپنی اسناد سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: ”میں لیلۃ القدر دکھلایا گیا پھر بھلا دیا گیا یہ آخری دس راتوں میں ہے یہ صاف شفاف سکون و وقار والی رات ہے نہ زیادہ سردی ہوتی ہے نہ زیادہ گرمی اس قدر روشنی رات ہوتی ہے کہ یہ معلوم ہوتا ہے گویا چاند چڑھا ہوا ہے سورج کے ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ دھوپ چڑھ جائے“۔ [صحیح ابن خریمہ:2190]