مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے، اسی کا نام «اللَّيْلَةُ الْمُبَارَكَةُ» بھی ہے۔
اور جگہ ارشاد ہے «إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ»[44-الدخان:3] اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے مہینے میں ہے، جیسے فرمایا «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ»[2-البقرۃ:185]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول ہے کہ ”پورا قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان اول پر بیت العزت میں اس رات اترا، پھر تفصیل وار واقعات کے مطابق بتدریج تئیس سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔“
پھر اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کی شان و شوکت کا اظہار فرماتا ہے کہ اس رات کی ایک زبردست برکت تو یہ ہے کہ قرآن کریم جیسی اعلیٰ نعمت اسی رات اتری، تو فرماتا ہے کہ ” تمہیں کیا خبر کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ “ پھر خود ہی بتاتا ہے کہ ” یہ ایک رات ایک ہزار مہینہ سے افضل ہے “۔
امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ ترمذی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت لائے ہیں کہ یوسف بن سعد سے کہ ایک آدمی نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے جبکہ آپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی کہا کہ ”تم نے ایمان والوں کے منہ کالے کر دئیے“ یا یوں کہا کہ ”اے مومنوں کے منہ سیاہ کرنے والے“، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تجھ پر رحم کرے، مجھ پر خفا نہ ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلایا گیا کہ گویا آپ کے منبر پر بنو امیہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ برا معلوم ہوا تو «إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ»[108-الکوثر:1] نازل ہوئی یعنی جنت کی نہر کوثر آپ کو عطا کیے جانے کی خوشخبری ملی اور «إِنَّا أَنزَلْنَاهُ» اتری، پس ہزار مہینے سے وہ مراد ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنو امیہ کی مملکت رہے گی، قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو وہ پورے ایک ہزار دن ہوئے، نہ ایک دن زیادہ، نہ ایک دن کم ۔ [سنن ترمذي:3350،قال الشيخ الألباني:ضعیف] امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو غریب بتلاتے ہیں اور اس کی سند میں یوسف بن سعد ہیں جو مجہول ہیں اور صرف اسی سند سے یہ مروی ہے۔
مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ یہ یوسف مجہول ہیں اس میں ذرا تذبذب ہے اس کے بہت سے شاگرد ہیں۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ مشہور ہیں اور ثقہ ہیں اور اس کی سند میں کچھ اضطراب ہے جیسا بھی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» بہر صورت یہ بہت ہی منکر روایت ہے۔
ہمارے شیخ حافظ حجت ابوالحجاج مزی بھی اس روایت کو منکر بتلاتے ہیں (یہ یاد رہے کہ قاسم کا قول جو ترمذی کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے حساب لگایا تو بنو امیہ کی سلطنت ٹھیک ایک ہزار دن تک رہی یہ نسخے کی غلطی ہے۔ ایک ہزار مہینے لکھنا چاہیئے تھا، میں نے ترمذی شریف میں دیکھا تو وہاں بھی ایک ہزار مہینے ہیں اور آگے بھی یہی آتا ہے۔ مترجم)
قاسم بن فضل حدانی کا یہ قول کہ بنو امیہ کی سلطنت کی ٹھیک مدت ایک ہزار مہینے تھی یہ بھی صحیح نہیں اس لیے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مستقل سلطنت سنہ ۴٠ ہجری میں قائم ہوئی جبکہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور امر خلافت آپ کو سونپ دیا اور سب لوگ بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت پر جمع ہو گئے اور اس سال کا نام ہی عام الجماعہ مشہور ہوا۔
پھر شام وغیرہ میں برابر بنو امیہ کی سلطنت قائم رہی ہاں تقریباً نو سال تک حرمین شریفین اور اہواز اور بعض شہروں پر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی سلطنت ہو گئی تھی لیکن تاہم اس مدت میں بھی کلیۃً ان کے ہاتھ سے حکومت نہیں گئی۔ البتہ بعض شہروں پر سے حکومت ہٹ گئی تھی، ہاں سنہ ۱۳۲ ھ میں بنوالعباس نے ان سے خلافت اپنے قبضہ میں کر لی پس ان کی سلطنت کی مدت بانوے برس ہوئی اور یہ ایک ہزار ماہ سے بہت زیادہ ہے ایک ہزار مہینے کے تراسی سال چار ماہ ہوتے ہیں۔ ہاں قاسم بن فضل کا یہ حساب اس طرح تو تقریباً ٹھیک ہو جاتا ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت اس گنتی میں سے نکال دی جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت کے زمانہ کی تو برائی اور مذمت بیان کرنی مقصود ہے اور لیلتہ القدر کی اس زمانہ پر فضیلت کا ثابت ہونا کچھ ان کے زمانے کی مذمت کی دلیل نہیں، لیلۃ القدر تو ہر طرح بزرگی والی ہے ہی اور یہ پوری سورت اس مبارک رات کی مدح و ستائش بیان کر رہی ہے، پس بنو امیہ کے زمانہ کے دنوں کی مذمت سے لیلۃ القدر کی کون سی فضیلت ثابت ہو جائے گی؟ یہ تو بالکل وہی مثل اصل ہو جائے گی کہ کوئی شخص تلوار کی تعریف کرتے ہوئے کہے کہ لکڑی سے بہت تیز ہے، کسی بہترین فضیلت والے شخص کو کسی کم درجہ کے ذلیل شخص پر فضیلت دینا تو اس شریف بزرگ کی توہین کرنا ہے۔
اور وجہ سنئے اس روایت کی بنا پر یہ ایک ہزار مہینے وہ ہوئے جن میں بنو امیہ کی سلطنت رہے گی اور یہ سورت اتری ہے مکہ شریف میں تو اس میں ان مہینوں کا حوالہ کیسے دیا جا سکتا ہے جو بنو امیہ کے زمانہ کے ہیں اس پر نہ تو کوئی لفظ دلالت کرتا ہے، نہ معنی کے طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے، منبر تو مدینہ میں قائم ہوتا ہے اور ہجرت کی ایک مدت بعد منبر بنایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے۔ پس ان تمام وجوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف اور منکر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»