یعنی ” ہم نے تیرے سینے کو منور کر دیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کر دیا “۔ اور جگہ ہے «فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ»[6-الأنعام:125] الخ، یعنی ” جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے “۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کشادہ کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی کشادگی والی، نرمی اور آسانی والی بنا دی، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے، نہ تنگی، نہ ترشی، نہ تکلیف اور سختی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گزر چکا، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے۔ [سنن ترمذي:3346،قال الشيخ الألباني:صحیح]
لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہو سکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنا دینا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بڑی دلیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ”ابوہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آ رہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آ کر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لیے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چنانچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی، نہ برا محسوس ہوا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چنانچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش، حسد و بغض سب نکال دو، چنانچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہر بڑے پر رحمت ہے“۔ [مسند احمد:139/5:ضعیف]
پھر فرمان ہے کہ ” ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا “۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کر دیا تھا۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ”جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے «أَشْهَد أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه وَأَشْهَد أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّه» ۔“
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا کوئی خطیب، کوئی واعظ، کوئی کلمہ گو، کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو۔
ابن جریر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ہی کو پورا علم ہے“ فرمایا: جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر کیا جائے گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37533:ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا، اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تو نے ہوا کو تابعدار کر دیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کر دیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ میں نے کہا ”بیشک“، فرمایا: راہ گم کردہ پا کر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی؟، میں نے کہا ”بیشک“، فرمایا: کیا فقیر پا کر غنی نہیں بنا دیا؟، میں نے کہا ”بیشک“، فرمایا: کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا؟ میں نے کہا ”بیشک“ کیا ہے۔“[حسن:شیخ عبدالرزاق فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے]
ابونعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا ”اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی، ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلیم بنایا، داؤد علیہ السلام کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا، سلیمان علیہ السلام کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے، پس میرے لیے کیا کیا ہے؟“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کر دیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جو «لَا حَوْل وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاَللَّهِ الْعَلِيّ الْعَظِيم» ہے “۔ [اسنادہ ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس سے مراد اذان ہے“ یعنی اذان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے، جس طرح حسان رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثبت فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت «اشھد» کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء علیہم السلام سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے۔
صرصری رحمہ اللہ نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ ”فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسندیدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو۔“ اور فرماتے ہیں کہ ”تم نہیں دیکھتے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر باربار اس میں نہ آئے۔“
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ ” سختی کے ساتھ آسانی، دشواری کے ساتھ سہولت ہے “۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی، اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری۔
مسند بزار میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر دشواری اس پتھر میں داخل ہو جائے تو آسانی آ کر اسے نکالے گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ [مسند بزار:2288:ضعیف] یہ حدیث صرف عائز بن شریح انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابوحاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ موقوف مروی ہے۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی، حسن رحمہ اللہ سے ابن جریر میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ”ہرگز ایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آ سکتی۔“ پھر اس آیت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی، یہ حدیث مرسل ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو خوشخبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آ سکتی ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:37533]
مطلب یہ ہے کہ «عُسْرِہ» کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور «يُسْرً» کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہو گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ «نَزَّلَ الْمَعُونَةَ مِنَ السَّمَاءِ عَلَى قَدْرِ الْمَؤُونَةِ، وَنَزَّلَ الصَّبْرَ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ» «الْمَعُونَةَ» یعنی امداد الٰہی بقدر «الْمَؤُونَةِ» یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبر مصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے۔ [مسند بزار::1506:صحیح]
یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا، نجات یافتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے۔
ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ کے اشعار ہیں کہ
«إِذَا اشْتَمَلَتْ عَلَى الْيَأْسِ الْقُلُوبُ» *** «وَضَاقَ لِمَا بِهِ الصَّدْرُ الرَّحِيبُ» *** «وَأَوْطَأَتِ الْمَكَارِهُ وَاطْمَأَنَّتْ» *** «وَأَرْسَتْ فِي أَمَاكِنِهَا الْخُطُوبُ» *** «وَلَمْ تَرَ لِانْكِشَافِ الضُّرِّ وَجْهًا» *** «وَلَا أَغْنَى بِحِيلَتِهِ الْأَرِيبُ» *** «أَتَاكَ عَلَى قُنُوطٍ مِنْكَ غَوْثٌ» *** «يَمُنُّ بِهِ اللَّطِيفُ الْمُسْتَجِيبُ» *** «وَكُلُّ الْحَادِثَاتِ إِذَا تَنَاهَتْ» «فَمَوْصُولٌ بِهَا الْفَرَجُ الْقَرِيبُ» جب مایوسی دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہو جاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارگر نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ تنگیاں جب کہ بھرپور آ پڑی ہیں پروردگار وسعتیں نازل فرما کر نقصان کو فائدے سے بدل دیتا ہے۔
کسی اور شاعر نے کہا ہے: «وَلَرُبَّ نَازِلَةٍ يَضِيقُ بِهَا الْفَتَى» *** «ذَرْعًا وَعِنْدَ اللَّهِ مِنْهَا الْمَخْرَجُ» *** «كَمُلَتْ فَلَمَّا اسْتَحْكَمَتْ حَلْقَاتُهَا» *** «فُرِجَتْ وَكَانَ يَظُنُّهَا لَا تُفْرَجُ» یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہو جاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہو جاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے، مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی۔
اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ ” جب تو دنیوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا، اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہو جا “۔
اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھانا سامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو ۔ [صحیح مسلم:560]
اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ [صحیح بخاری:5463]
مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”یعنی دعا کر“، زید بن اسلم رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا۔“ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔“
سورۃ الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»