مسند احمد میں ہے علقمہ رحمہ اللہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کے ہو تو علقمہ رحمہ اللہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد رضی اللہ عنہ اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے؟ میں نے کہا «والذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ» پڑھتے تھے، سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچا لئے گئے تھے وہ نہیں؟ [مسند احمد:449/6:صحیح] یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔
یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے شاگرد اور ساتھی سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے؟ کہا کہ ہم سب ہیں، پھر پوچھا کہ تم سب میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والا کون ہے؟ لوگوں نے سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ» کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے تم نے کس طرح سنا؟ تو کہا وہ «وَالذَّكَر وَالْأُنْثَى» پڑھتے تھے کہا میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں «وَمَا خَلَقَ الذَّكَر وَالْأُنْثَى» پڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں۔ [صحیح بخاری:4944]
الغرض سیدنا ابن مسعود اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم کی قرأت یہی ہے اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے، اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والا ہے۔
جیسے فرمایا «وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا»[78-النبأ:8] ” ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے “ اور فرمایا «وَمِنْ كُلّ شَيْء خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ»[51-الذاريات:49] ” ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں “۔ ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھا کر اب فرماتا ہے کہ ” تمہاری کوششیں اور تمہارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں “۔
پھر فرمایا ہے کہ ” جس نے دیا “ یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف اللہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا۔
حسنیٰ کے معنی «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کے بھی کئے گئے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں۔ (ضعیف:شیخ عبدالرزاق مہدی فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی دو علتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں زھیر بن محمد راوی اھل شام سے منکر رواتیں بیان کرتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے)۔
پھر فرمایا ہے کہ ” ہم آسانی کی راہ آسان کر دیں گے “ یعنی بھلائی، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کر دیں گے۔
جیسے فرمایا «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ»[6-الأنعام:110] الخ، یعنی ” ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے “۔
اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم میں کئی جگہ موجود ہیں کہ ” ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے “۔
اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق“، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت؟ فرمایا: ”ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“۔ [مسند احمد:6/1:حسن لغیرہ]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے، اور لکھی ہوئی ہے۔“ لوگوں نے کہا: پھر ہم اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ کیوں نہ رہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ [صحیح بخاری:4945]
اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے۔ [صحیح بخاری:1362]
مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما کا گزرا مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب بھی تقریباً ً ایسا ہی مروی ہے۔ [مسند احمد:52/2:صحیح]
ابن جریر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے۔ [صحیح مسلم:2648]
ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی جواب مروی ہے، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ! ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37479:مرسل]
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ [مسند احمد:446/6:حسن لغیرہ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ! سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر“ یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37456:ضعیف]
ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آ کر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرما دیا کہ ”اچھا تم جاؤ“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ والے سے ملے اور فرمایا ”تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دیدے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا۔“ وہ کہنے لگا اچھا میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔
ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اگر یہ درخت میرا ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کر دوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دیدے۔ لیکن کون دے سکتا ہے؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو؟ کہا چالیس درخت خرما کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کر لو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہو گیا گواہ مقرر ہو گئے۔
پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئیے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور۔ چنانچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! اب وہ درخت میرا ہو گیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے ”یہ درخت تمہارا ہے اور تمہارے بال بچوں کا“، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ [الدر المنشور للسیوطی:26/6:ضعیف]
ابن جریر میں مروی ہے کہ ”یہ آیتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہو جاتے تھے آزاد کر دیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد ابوقحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جو ان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمہارے کام آئیں، تمہاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں۔
تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دنیوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37457]
«تَرَدَّى» کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی۔