اللہ تبارک و تعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں، «لا» سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ ” اے نبی! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہو گا اور اس میں جو ملے وہ حلال ہو گا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے “۔
صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہ کاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرف ایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیئے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے ۔
ایک روایت میں ہے کہ اگر یہاں کے جنگ و جدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی ۔ [صحیح بخاری:1832]
پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ «مَا وَلَدَ» میں «مَا» نافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بے اولاد ہے یعنی عیالدار اور بانجھ۔ «مَا» کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم، باپ سے مراد آدم اور اولاد سے مراد کل انسان، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی۔
ابوعمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مراد ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی اولاد ہے۔“ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد۔“
پھر فرماتا ہے کہ ” ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والا ٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے “۔
جیسے فرمایا «يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ»[82-الانفطار:6،7] ، یعنی ” اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی “۔
اور جگہ ہے «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ»[95-التين:4] ” ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ۔“ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں اٹھاتا ہے۔“
جیسے اور جگہ ہے «حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا»[46-الأحقاف:15] ” اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا “، بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے۔“ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے۔“
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا؟ یقیناً اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرچ کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا؟ “ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے۔ ” کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی “۔
ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بے حد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنا دیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کر لے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کر لے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے۔ اے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ [تاریخ دمشق لا بن عساکر:46/19:مرسل و ضعیف]
پھر فرمایا کہ ” ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے؟“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:200/30:ضعیف] یہ حدیث بہت ضعیف ہے۔
یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں ”مراد اس سے دونوں دودھ ہیں“ اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا»[76-الإنسان:2-3] یعنی ” ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گزار ہے یا ناشکرا “۔