قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ ” بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائے گی اونچی نیچی زمین برابر کر دی جائے گی اور بالکل صاف ہموار ہو جائے گی پہاڑ زمین کے برابر کر دئیے جائیں گے، تمام مخلوق قبر سے نکل آئے گی، خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائے گا “۔
یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی اور یہ شفاعت اس وقت ہو گی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر علیہ السلام کے پاس ہو آئے گی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں، پھر سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ ”ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورۃ سبحان میں گزر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائے گا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے، فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائے گی۔
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے“۔ [صحیح مسلم:2842]
یہی روایت خود سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا، برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کرے گا، گناہوں پر نادم ہو گا۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گزار رہے پھر بھی اپنی اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجر و ثواب کے کام اور زیادہ کروں“۔ [مسند احمد:185/4:صحیح]
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہو گا۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کرے گا، نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہو سکتی ہے، زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے “۔
یہ تو ہوا بدبختوں کا انجام، اب نیک بختوں کا حال سنئے جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائے گا کہ تو اپنے رب کی طرف، اس کے پڑوس کی طرف، اس کے ثواب اور اجر کی طرف، اس کی جنت اور رضا مندی کی طرف لوٹ چل، یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہو جائے گا، ” تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہو جا “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے، بریدہ فرماتے ہیں حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائے گا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہؤے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو۔
یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس آیت کو «فَاْدخُلِیْ فِیْ عَبْدِیْ» پڑھتے تھے یعنی ” اے روح میرے بندے میں “ یعنی ” اس کے جسم میں چلی جا “، لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے «ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ»[6-الأنعام:62] یعنی ” پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے “۔
اور جگہ ہے «وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ»[40-غافر:43] یعنی ” ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے “۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہیں بھی یہی کہا جائے گا“۔ [ابونعیم فی الحلیہ:283/4:ضعیف]
دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ آیتیں پڑھیں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا: جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37213:ضعیف و مرسل]
ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ ”جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے“، یہ روایت طبرانی میں بھی ہے۔
ابوہاشم قباث بن رزین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہو گئے، شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کر لو ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہو گئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا بادشاہ نے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیا وہ نیچے ڈوب گیا اور ذرا سی دیر میں پانی پر آ گیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا: سنو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ» * «ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً» * «فَادْخُلِي فِي عِبَادِي» * «وَادْخُلِي جَنَّتِي»[89-الفجر:27-30] اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہٰ لگا گیا اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہو جاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرا دیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہو گئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف سے ہمارا فدیہ آ گیا اور ہم نے نجات پائی۔
ابن عساکر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا: ”یہ دعا پڑھا کر «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلك نَفْسًا بِك مُطْمَئِنَّة تُؤْمِن بِلِقَائِك وَتَرْضَى بِقَضَائِك وَتَقْنَع بِعَطَائِك» الخ یعنی الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو، تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو، تیری قضاء پر راضی ہو، تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ہو“۔ [مجمع الزوائد:180/10:ضعیف]
سورۃ والفجر کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»