اوپر چونکہ بدکاروں کا بیان اور ان کے عذابوں کا ذکر ہوا تھا تو یہاں نیک کاروں اور ان کے ثوابوں کا بیان ہو رہا ہے۔
چنانچہ فرمایا کہ ” اس دن بہت سے چہرے ایسے بھی ہوں گے جن پر خوشی اور آسودگی کے آثار ظاہر ہوں گے یہ اپنے اعمال سے خوش ہوں گے، جنتوں کے بلند بالا خانوں میں ہوں گے جس میں کوئی لغو بات کان میں نہ پڑے گی “۔
جیسے فرمایا: «لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا»[19-مريم:62] الخ یعنی ” اس میں سوائے سلامتی اور سلام کے کوئی بری بات نہ سنیں گے “۔
اور فرمایا: «لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ»[52-الطور:23] الخ یعنی ” نہ اس میں بیہودگی ہے، نہ گناہ کی باتیں “۔
اور فرمایا ہے «لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا» * «إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا»[56-الواقعة:25-26] یعنی ” نہ اس میں فضول گوئی سنیں گے، نہ بری باتیں، سوائے سلام ہی سلام کے اور کچھ نہ ہو گا “، اس میں بہتی ہوئی نہریں ہوں گی یہاں نکرہ اثبات کے سیاق میں ہے ایک ہی نہر مراد نہیں بلکہ جنس نہر مراد ہے یعنی نہریں بہتی ہوں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جنت کی نہریں مشک کے پہاڑوں اور ٹیلوں سے نکلتی ہیں ان میں اونچے اونچے بلند و بالا تخت ہیں جن پر بہترین فرش ہیں ۔ [صحیح ابن حبان:7408:ضعیف] اور ان کے پاس حوریں بیٹھی ہوئی ہیں گویہ تخت بہت اونچے اور ضخامت والے ہیں لیکن جب یہ اللہ کے دوست ان پر بیٹھنا چاہیں گے تو وہ جھک جائیں گے، شراب کے بھرپور جام ادھر ادھر قرینے سے چنے ہوئے ہیں جو چاہے جس قسم کا چاہے جس مقدار میں چاہے لے لے اور پی لے، اور تکیے ایک قطار میں لگے ہوئے اور ادھر ادھر بہترین بستر اور فرش باقاعدہ بچھے ہوئے ہیں۔
ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی ہے جو تہبند چڑھائے جنت کی تیاری کرے اس جنت کی جس کی لمبائی چوڑائی بے حساب ہے رب کعبہ کی قسم وہ ایک چمکتا ہوا نور ہے وہ ایک لہلہاتا ہوا سبزہ ہے وہ بلند و بالا محلات ہیں وہ بہتی ہوئی نہریں ہیں وہ بکثرت ریشمی حلے ہیں وہ پکے پکائے عمدہ پھل ہیں وہ ہمیشگی والی جگہ ہے وہ سراسر میوہ جات سبزہ راحت اور نعمت ہے وہ تروتازہ بلند و بالا جگہ ہے“، سب لوگ بول اٹھے کہ ہم سب اس کے خواہشمند ہیں اور اس کے لیے تیاری کریں گے، فرمایا: ”ان شاءاللہ کہو“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان شاءاللہ کہا۔ [سنن ابن ماجہ:4332:ضعیف]