بدکاروں کا حشر بیان کرنے کے بعد اب نیک لوگوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کا ٹھکانا «عِلِّيِّينَ» ہے جو کہ «سِجِّينٍ» کے بالکل برعکس ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے «سِجِّينٍ» کا سوال کیا تو فرمایا کہ ”وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں۔“ اور «عِلِّيِّينَ» کے سوال کے جواب میں فرمایا ”یہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مومنوں کی روحیں ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد اس سے جنت ہے۔ عوفی رحمہ اللہ آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان میں ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے، اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہے۔
ظاہر یہ ہے کہ لفظ «علو» یعنی بلندی سے ماخوذ ہے۔ جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی اس لیے اس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا ” تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہی نہیں۔ “ پھر اس کی تاکید کی کہ ” یہ یقینی چیز ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ علیین میں جائیں گے جس کے پاس ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں۔ “
پھر فرمایا کہ ” قیامت کے دن یہ نیکوکار دائمی والی نعمتوں اور باغات میں ہوں گے یہ مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے اپنے ملک و مال نعمتوں راحتوں عزت و جاہ مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے یہ خیر و فضل یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو، نہ گم ہو، نہ گھٹے، نہ مٹے۔ “
اور یہ بھی معنی ہیں کہ ” اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدار اللہ سے مشرف ہوتے رہیں گے۔ “ تو گویا کہ فاجروں کے بالکل برعکس ہوں گے ان پر دیدار باری حرام تھا ان کے لیے ہر وقت اجازت ہے جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ سب سے نیچے درجے کا جنتی اپنے ملک اور ملکیت کو دو ہزار سال کی راہ تک دیکھے گا اور سب سے آخر کی چیزیں اس طرح اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی جس طرح سب سے اول چیز۔ اور اعلیٰ درجہ کے جنتی تو دن بھر میں دو دو مرتبہ دیدار باری کی نعمت سے اپنے دل کو مسرور اور اپنی آنکھوں کو پر نور کریں گے۔ [سنن ترمذي:3330،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ان کے چہرے پر کوئی نظر ڈالے تو بیک نگاہ آسودگی اور خوش حالی، جاہ و حشمت، شوکت و سطوت، خوشی و سرور، بہشت و نور دیکھ کر ان کا مرتبہ تاڑ لے اور سمجھ لے کہ راحت و آرام میں خوش و خرم ہیں جنتی شراب کا دور چلتا رہتا ہے۔ «رحیق» جنت کی ایک قسم کی شراب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم پلائے گا یعنی جنت کی مہر والی شراب اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اسے اللہ تعالیٰ جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے اللہ تعالیٰ اسے جنتی سبز ریشم کے جوڑے پہنائے گا۔ [سنن ترمذي:2449،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
«خِتٰمُ» کے معنی ملونی اور آمیزش کے ہیں اسے اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے اور مشک کی مہر لگا دی ہے یہ بھی معنی ہیں کہ انجام اس کا مشک ہے یعنی کوئی بدبو نہیں بلکہ مشک کی سی خوشبو ہے چاندی کی طرح سفید رنگ شراب ہے جس قدر مہر لگے گی یا ملاوٹ ہو گی اس قدر خوشبو والی ہے کہ اگر کسی اہل دنیا کی انگلی اس میں تر ہو جائے پھر چاہے اسی وقت اسے وہ نکال لے لیکن تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک جائے اور «ختام» کے معنی خوشبو کے بھی کیے گئے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ” حرص کرنے والے فخر و مباہات کرنے والے کثرت اور سبقت کرنے والوں کو چاہیئے کہ اس کی طرف تمام تر توجہ کریں“ جیسے اور جگہ ہے «لِمِثْلِ هَـٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ»[37-الصافات:61] ” ایسی چیزوں کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیئے۔ “
«تسنیم» جنت کی بہترین شراب کا نام ہے یہ ایک نہر ہے جس سے سابقین لوگ تو برابر پیا کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ والے اپنی شراب رحیق میں ملا کر پیتے ہیں۔