پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لیے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیئے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضروریات کا اپنے امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں: ”لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا باربار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی“۔ [سنن ابن ماجہ:1625،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے ۔ [مسند احمد:131/4:حسن]
مسلم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ دراوغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے ان کی خوراک دے دی؟ اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے ۔ [صحیح مسلم:996]
مسلم میں ہے مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے۔ [صحیح مسلم:1662]
بخاری شریف میں ہے جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیئے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے۔ [صحیح بخاری:5460]
اور روایت میں ہے کہ چاہیئے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو، آپ فرماتے ہیں تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہو جائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے۔ [صحیح بخاری:30]
پھر فرمایا کہ خود بین، معجب، متکبر، خود پسند، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تیئں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں، وہ گو اپنے آپ کو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے۔
ابورجاہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر بدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بدنصیب ہوتا ہے پھر آپ نے آیت «وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا» [19-مريم:32] پڑھی، عوام بن حوشب رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔
مطرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا اچھا پھر وہ تین کون ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے۔ آپ نے اسی آیت «إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا» [4-النساء:36] کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو [تفسیر ابن جریر الطبری:3/5313:صحیح]
بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے مجھے کچھ نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے۔ [سنن ترمذي:2721:صحیح]