اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہود و نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ «الْجَارِ ذِي الْقُرْبَى» سے مراد بیوی ہے اور «الْجَارِ الْجُنُبِ» سے مراد مرد رفیق سفر ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:341/8]
پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے“۔ [صحیح بخاری:6015]
فرماتے ہیں: ”بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں میں سے سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو“۔ [سنن ترمذي:1944،قال الشيخ الألباني:صحیح]
فرماتے ہیں: ”انسان کو نہ چاہیئے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے“۔ [مسند احمد:1/54:منقطع ولہ شواھد]
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا: ”زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول نے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے“، پھر دریافت فرمایا: ”تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟“ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرالے“۔ [مسند احمد:8/6،قال الشيخ الألباني:صحیح]
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے“، میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ”یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے“۔ [صحیح بخاری:6001]
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس شخص نے تو آپ کو بہت دیر کھڑا رکھا میں تو پریشان ہو گیا آپ کے پاوں تھک گئے ہوں گے، آپ نے فرمایا: ”اچھا تم نے انہیں دیکھا“، میں نے کہا: ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا: ”جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے“[مسند احمد:5/32،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند عبد بن حمید میں ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”تم نے انہیں دیکھا؟“ اس نے کہا: ہاں، فرمایا: ”تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے“۔ [مسند بزار:1897:صحیح بالشواھد]
آٹھویں حدیث بزار میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہو گئے“۔ [مسند بزار:1896:ضعیف]
نویں حدیث مسند احمد میں ہے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھجواؤں؟ آپ نے فرمایا: ”جس کا دروازہ قریب ہو“۔ [صحیح بخاری:2259]
دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں، آپ نے فرمایا: ”جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے“۔ (تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیئے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے۔ مترجم)۔ [بیہقی:2/1533،قال الشيخ الألباني:صحیح]
گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا۔ [مسند احمد:4/151،قال الشيخ الألباني:حسن]
پھر حکم ہوتا ہے «الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ» کے ساتھ سلوک کرنے کا۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں «ابن السبیل» سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہو گئے، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے۔ «ان شاءاللہ تعالیٰ»