اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” قیامت کے دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے “۔ جیسے فرمایا «السَّماءُ مُنفَطِرٌ بِهِ»[73-المزمل:18] ” اور ستارے سب کے سب گر پڑیں گے اور کھاری اور میٹھے سمندر آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے۔ اور پانی سوکھ جائے گا قبریں پھٹ جائیں گی، ان کے شق ہونے کے بعد مردے بھی جی اٹھیں گے، پھر ہر شخص اپنے اگلے پچھلے اعمال کو بخوبی جان لے گا “۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دھمکاتا ہے کہ ” تم کیوں مغرور ہو گئے ہو؟ “ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب طلب کرتا ہو یا سکھاتا ہو، بعض نے یہ بھی کہا ہے بلکہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ اللہ کے کرم نے غافل کر رکھا ہے، یہ معنی بیان کرنے غلط ہیں۔
صحیح مطلب یہی ہے کہ ” اے ابن آدم! اپنے باعظمت اللہ سے تو نے کیوں بے پرواہی برت رکھی ہے، کس چیز نے تجھے اس کی نافرمانی پر اکسا رکھا ہے؟ اور کیوں تو اس کے مقابلے پر آمادہ ہو گیا ہے؟ “
حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے ابن آدم! تجھے میری جانب سے کسی چیز نے مغرور کر رکھا تھا؟ ابن آدم! بتا تو نے میرے نبیوں کو کیا جواب دیا؟
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ ”انسانی جہالت نے اسے غافل بنا رکھا ہے“، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اسے بہکانے والا شیطان ہے۔“ فضیل ابن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اگر مجھ سے یہ سوال ہو تو میں جواب دوں گا کہ تیرے لٹکائے ہوئے پروں نے۔“ ابوبکر وراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”میں تو کہوں گا کہ «الْكَرِيمِ» کے کرم نے بے فکر کر دیا۔“
بعض سخن شناس فرماتے ہیں کہ یہاں پر «الْكَرِيمِ» کا لفظ لانا گویا جواب کی طرف اشارہ سکھانا ہے، لیکن یہ قول کچھ فائدے مند نہیں، بلکہ مطلب صحیح یہ ہے کہ کرم والوں کو اللہ کے کرم کے مقابلہ میں بدافعال اور برے اعمال نہ کرنے چاہئیں۔
سیدنا کلبی اور مقاتل رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”اخنس بن شریق کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے۔ اس خبیث نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارا تھا اور اسی وقت چونکہ اس پر کچھ عذاب نہ آیا تو وہ پھول گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔“[بغوی:4/424:ضعیف]
پھر فرماتا ہے ” وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا، پھر درمیانہ قد و قامت بخشا، خوش شکل اور خوبصورت بنایا “۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! کیا تو مجھے عاجز کر سکتا ہے؟ حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر صحیح قامت بنایا، پھر تجھے پہنا اوڑھا کر چلنا پھرنا سکھایا، آخر کار تیرا ٹھکانہ زمین کے اندر ہے تو نے خوب دولت جمع کی اور میری راہ میں دینے سے باز رہا یہاں تک کہ جب دم حلق میں آ گیا تو کہنے لگا میں صدقہ کرتا ہوں۔ بھلا اب صدقے کا وقت کہاں؟ ۔ [سنن ابن ماجہ:2707،قال الشيخ الألباني:حسن] جس صورت میں چاہا ترکیب دی یعنی باپ کی، ماں کی، ماموں کی، چچا کی صورت پر پیدا کیا۔
ایک شخص سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے ہاں بچہ کیا ہو گا؟“ اس نے کہا: یا لڑکا یا لڑکی، فرمایا: ”کس کے مشابہ ہو گا؟“ کہا: یا میرے یا اس کی ماں کے، فرمایا!: ”خاموش ایسا نہ کہہ، نطفہ جب رحم میں ٹھہرتا ہے تو آدم تک کا نسب اس کے سامنے ہوتا ہے۔“ پھر آپ نے «فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ»[82-الإنفطار:2] پڑھی اور فرمایا: ”جس صورت میں اس نے چاہا تجھے چلایا“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:36567:ضعیف] یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو آیت کے معنی کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے۔ مظہرین ہثیم جو اس کے راوی ہیں یہ متروک الحدیث ہیں، ان پر اور جرح بھی ہے۔
بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا میری بیوی کو جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ سیاہ فام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے پاس اونٹ بھی ہیں؟“ کہا: جی ہاں، فرمایا: ”کس رنگ کے؟“ کہا: سرخ رنگ کے، فرمایا: ”ان میں کوئی چتکبرا بھی ہے؟“ کہا: ہاں، فرمایا: ”اس رنگ کا بچہ سرخ نر و مادہ کے درمیان کیسے پیدا ہو گیا؟“ کہنے لگا شاید اس کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ لے گئی ہو، آپ نے فرمایا: ”اسی طرح تیرے بچے کے سیاہ رنگ کے ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو“۔ [صحیح بخاری:5305]
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر چاہے بندر کی صورت بنا دے اگر چاہے سور کی۔
ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر چاہے کتے کی صورت میں بنا دے اگر چاہے گدھے کی اگر چاہے سور کی، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سب سچ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین، عمدہ، خوش شکل اور دل لبھانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ اس کریم اللہ کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمہارے دلوں میں قیامت کی تکذیب ہے تم اس کا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لیے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو، تم یقین مانو کہ تم پر بزرگ محافظ اور کاتب فرشتے مقرر ہیں تمہیں چاہیئے کہ ان کا لحاظ رکھو وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں، تمہیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کے یہ بزرگ فرشتے تم سے جنابت اور پاخانہ کی حالت کے سوا کسی وقت الگ نہیں ہوتے۔ تم انکا احترام کرو، غسل کے وقت بھی پردہ کر لیا کرو، دیوار سے یا اوٹ سے ہی سہی یہ بھی نہ تو اپنے کسی ساتھی کو کھڑا کر لیا کرو تاکہ وہی پردہ ہو جائے ۔ [تفسیر قرطبی:19/248:مرسل] (ابن ابی حاتم)
بزار کی اس حدیث کے الفاظ میں کچھ تغیر و تبدل ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ننگا ہونے سے منع کرتا ہے، اللہ کے ان فرشتوں سے شرماؤ، اس میں یہ بھی ہے کہ غسل کے وقت بھی یہ فرشتے دور ہو جاتے ہیں ۔ [مختصر زوائد البزار:1/181:اسناد ضعیف]
ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ کراماً کاتبین بندے کے روزانہ اعمال اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں تو اگر شروع اور آخر میں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے درمیان کی سب خطائیں میں نے اپنے غلام کی بخش دیں ۔ [مسند بزار:3252،،قال الشيخ زبیرعلی زئی:اسناد ضعیف]
ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے انسانوں کو اور ان کے اعمال جو جانتے پہنچانتے ہیں جب کسی بندے کو نیکی میں مشغول پاتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں شخص نجات پا گیا فلاح حاصل کر گیا اور اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو آپس میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کی رات فلاں ہلاک ہوا ۔ [مسند بزار:3214:ضعیف]