جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکاری تھے ان کی یہاں مذمت بیان ہو رہی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یعنی انسان پر لعنت ہو یہ کتنا بڑا ناشکر گزار ہے“، اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ عموماً تمام انسان جھٹلانے والے ہیں بلا دلیل محض اپنے خیال سے ایک چیز کو ناممکن جان کر باوجود علمی سرمایہ کی کمی کے جھٹ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اس جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے؟
اس کے بعد اس کی اصلیت جتائی جاتی ہے کہ وہ خیال کرے کہ کس قدر حقیر اور ذلیل چیز سے اللہ نے اسے بنایا ہے، کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا؟ اس نے انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقدر کی یعنی عمر، روزی، عمل اور نیک و بد ہونا لکھا۔ پھر اس کے لیے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کر دیا، اور یہ بھی معنی ہیں کہ ہم نے اپنے دین کا راستہ آسان کر دیا یعنی واضح اور ظاہر کر دیا۔
جیسے اور جگہ ہے «اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا»[76-الإنسان:3] یعنی ” ہم نے اسے راہ دکھائی پھر یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا “۔ حسن اور ابن زید رحمہ اللہ علیہم اسی کو راجح بتاتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا۔ عرب کا محاورہ ہے کہ وہ جب کسی کو دفن کریں تو کہتے ہیں «قبرت الرَّجُلَ» اور کہتے ہیں «اقبَرُہُ اللہ» اسی طرح کے اور بھی محاورے ہیں مطلب یہ ہے کہ ” اب اللہ نے اسے قبر والا بنا دیا “۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا، اسی کی زندگی کو «بعث» بھی کہتے ہیں اور «نشور» بھی، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ» [30-الروم:20] ” اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر اٹھ بیٹھے “۔
اور جگہ ہے «كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا» [2-البقرة:259] ” ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے بٹھاتے ہیں، پھر کس طرح انہیں گوشت چڑھاتے ہیں “۔
ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی، لوگوں نے کہا، وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمہاری پیدائش ہوگی“۔ [اسنادہ ضعیف ولہ اصل صحیح:صحیح بخاری:4935]
یہ حدیث بغیر سوال و جواب کی زیادتی کے بخاری مسلم میں بھی ہے کہ ابن آدم گل سڑ جاتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے پھر ترکیب دیا جائے گا ۔ [صحیح بخاری:4935]
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جس طرح یہ ناشکرا اور بے قدر انسان کہتا ہے کہ اس نے اپنی جان و مال میں اللہ کا جو حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ ابھی تو اس نے فرائض اللہ سے بھی سبکدوشی حاصل نہیں کی “۔
مجاہد رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ”کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی پوری ادائیگی نہیں ہو سکتی۔“ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی ایسے ہی معنی مروی ہیں، متقدمین میں سے میں نے تو اس کے سوا کوئی اور کلام نہیں پایا، ہاں مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ فرمان باری کا یہ مطلب ہے کہ پھر جب چاہے دوبارہ پیدا کرے گا، اب تک اس کے فیصلے کے مطابق وقت نہیں آیا۔ یعنی ابھی ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت ختم ہو اور بنی آدم کی تقدیر پوری ہو۔
ان کی قسمت میں اس دنیا میں آنا اور یہاں برا بھلا کرنا وغیرہ جو مقدر ہو چکا ہے۔ وہ سب اللہ کے اندازے کے مطابق پورا ہو چکے اس وقت وہ خلاق کل دوبارہ زندہ کر دے گا اور جیسے کہ پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب دوسری دفعہ پھر پیدا کر دے گا۔
ابن ابی حاتم میں وہب بن منبہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عزیز علیہ السلام نے فرمایا ”میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ قبریں زمین کا پیٹ ہیں اور زمین مخلوق کی ماں ہے جب کہ کل مخلوق پیدا ہو چکے گی پھر قبروں میں پہنچ جائے گی اس وقت دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور جو بھی زمین پر ہوں گے سب مر جائیں گے۔ اور زمین میں جو کچھ ہے اسے زمین اگل دے گی اور قبروں میں جو مردے ہیں سب باہر نکال دئیے جائیں گے۔“ یہ قول ہم اپنی اس تفسیر کی دلیل میں پیش کر سکتے ہیں۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ»
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” میرے اس احسان کو دیکھیں کہ میں نے انہیں کھانا دیا، اس میں بھی دلیلیں ہے موت کے بعد جی اٹھنے کی کہ جس طرح خشک غیر آباد زمین سے ہم نے تروتازہ درخت اگائے اور ان سے اناج وغیرہ پیدا کر کے تمہارے لیے کھانا مہیا کیا اسی طرح گلی سڑی کھوکھلی اور چورا چورا ہڈیوں کو بھی ہم ایک روز زندہ کر دیں گے اور انہیں گوشت پوست پہنا کر دوبارہ تمہیں زندہ کر دیں گے۔
تم دیکھ لو کہ ہم نے آسمان سے برابر پانی برسایا پھر اسے ہم نے زمین میں پہنچا کر ٹھہرا دیا وہ بیج میں پہنچا اور زمین میں پڑے ہوئے دانوں میں سرایت کی جس سے وہ دانے اگے، درخت پھوٹا، اونچا ہوا اور کھیتیاں لہلہانے لگیں، کہیں اناج پیدا ہوا، کہیں انگور اور کہیں ترکاریاں “۔
«حَبًّ» کہتے ہیں کہ ہر دانے کو، «عِنَبً» کہتے ہیں انگور کو اور «قَضْبً» کہتے ہیں اس سبز چارے کو جسے جانور کھاتے ہیں اور زیتون پیدا کیا جو روٹی کے ساتھ سالن کا کام دیتا ہے، جلایا جاتا ہے، تیل نکالا جاتا ہے، اور کھجوروں کے درخت پیدا کئے جو گدرائی ہوئی بھی کھائی جاتی ہیں، تر بھی کھائی جاتی ہے اور خشک بھی کھائی جاتی ہے اور پکی بھی اور اس کا شیرہ اور سرکہ بھی بنایا جاتا ہے اور باغات پیدا کئے۔
«غُلْبًا» کے معنی کھجوروں کے بڑے بڑے میوہ دار درخت ہیں۔ «حَدَائِقَ» کہتے ہیں ہر اس باغ کو جو گھنا، خوب ہرا بھرا، گہرے سائے والا اور بڑے بڑے درختوں والا ہو، موٹی گردن والے آدمی کو بھی عرب «اغلب» کہتے ہیں، اور میوے پیدا کئے اور «أَبًّ» کہتے ہیں زمین کی اس سبزی کو جسے جانور کھاتے ہیں اور انسان اسے نہیں کھاتے، جیسے گھاس پات وغیرہ، «أَبًّ» جانوروں کے لیے ایسا ہی ہے جیسا انسان کے لیے «فَاكِهَةً» یعنی پھل، میوہ۔
عطاء رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”زمین پر جو کچھ اگتا ہے اسے «أَبًّ» کہتے ہیں۔“ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”سوائے میوؤں کے باقی سب «أَبًّ» ہے۔“ ابو السائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «أَبًّ» آدمی کے کھانے میں بھی آتا ہے اور جانور کے کھانے میں بھی۔“
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بابت سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں ”کون سا آسمان مجھے اپنے تلے سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گی، اگر میں کتاب اللہ میں کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو“، لیکن یہ اثر منقطع ہے، ابراہیم تیمی نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔
ہاں البتہ صحیح سند سے ابن جریر میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے منبر پر سورۃ عبس پڑھی اور یہاں تک پہنچ کر کہا کہ «فَاكِهَةً» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «أَبًّ» کیا چیز ہے؟ پھر خود ہی فرمانے لگے ”اس تکلیف کو چھوڑ۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:451/12]
اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور اس کی تعیین معلوم نہیں ورنہ اتنا تو صرف آیت کے پڑھنے سے ہی صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ زمین سے اگنے والی ایک چیز ہے کیونکہ پہلے یہ لفظ موجود ہے «فَاَنْبَتْنَا فِيْهَا» [31-لقمان:10] ۔ پھر اللہ فرماتا ہے ” تمہاری زندگی کے قائم رکھنے، تمہیں فائدہ پہنچانے اور تمہارے جانووں کے لیے ہے کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اور تم اس سے فیضیاب ہوتے رہو گے “۔