مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ذات السلاسل والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا آپ فرماتے ہیں مجھے ایک رات احتلام ہو گیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے نہانے میں اپنی جان جانے کا خطرہ ہو گیا تو میں نے تیمم کر کے اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھا دی جب وہاں سے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو میں نے یہ واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنے ساتھیوں کو جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاڑا سخت تھا اور مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ تھا تو مجھے یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے پس میں نے تیمم کر کے نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے اور مجھے کچھ نہ فرمایا۔ [سنن ابوداود:334،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ایک روایت میں ہے کہ اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے دریافت کرنے پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا۔ (ضعیف جداً: اس کی سند میں یوسف بن خالد راوی سخت ضعیف ہے۔)
بخاری و مسلم میں ہے جو شخص کسی لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خودکشی کرتا رہے گا، اور جو جان بوجھ کر مر جانے کی نیت سے زہر کھا لے گا۔ [صحیح بخاری:5778]
وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا اور روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا وہ قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب کیا جائے گا۔ [صحیح بخاری:1363]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو زخم لگے اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہ گیا اور وہ اسی میں مر گیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بندے نے اپنے تئیں فنا کرنے میں جلدی کی اسی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کیا۔ [صحیح بخاری:1364]
اسی لیے اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے ساتھ حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے دلیرانہ طور سے حرام پر کار بند رہے وہ جہنمی ہے، پس ہر عقلمند کو اس سخت تنبیہہ سے ڈرنا چاہیئے دل کے کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس طرح کی کوئی سخت وعید نہیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں اپنے اہل و مال سے الگ ہو جانا چاہیئے پھر ہم اس کے لیے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے کبیرہ گناہوں کو ہمارے چھوٹے موٹے گناہوں سے معاف فرماتا ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی۔
اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
مسند احمد میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟“ میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا: ”مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کر کے نماز جمعہ کے لیے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا۔“[مسند احمد:5/439،قال الشيخ الألباني:حسن]
ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا: ”اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سر نیچا کر لیا ہم نے بھی سر نیچا کر لیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لیے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ کے اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے، اب آپ فرمانے لگے جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔ [سنن نسائی:2440،قال الشيخ الألباني:ضعیف]