اوپر چونکہ بدکاروں کی سزاؤں کا بیان ہوا تھا یہاں نیک کاروں کی جزا کا بیان ہو رہا ہے کہ ” جو لوگ متقی پرہیزگار تھے، اللہ کے عبادت گزار تھے، فرائض اور واجبات کے پابند تھے، اللہ کی نافرمانیوں سے حرام کاریوں سے بچتے تھے وہ قیامت کے دن جنتوں میں ہوں گے، جہاں قسم قسم کی نہریں چل رہی ہیں۔ گنہگار سیاہ بدبودار دھوئیں میں گھرے ہوئے ہوں گے اور یہ نیک کردار جنتوں کے گھنے ٹھنڈے اور پرکیف سایوں میں باآرام تمام لیٹے بیٹھے ہوں گے۔ سامنے صاف شفاف چشمے اپنی پوری پوری روانی سے جاری ہیں۔ قسم قسم کے پھل میوے اور ترکاریاں موجود ہیں، جسے جب جی چاہے کھائیں، نہ روک ٹوک ہے، نہ کمی اور نقصان کا اندیشہ ہے، نہ فنا ہونے اور ختم ہونے کا خطرہ ہے “۔
پھر حوصلہ بڑھانے اور دل میں خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باربار فرمایا جاتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو! تم باخوشی اور با فراغت لذیذ پر کیف طَعام خوب کھاؤ پیو، ہم ہر نیک کار پرہیزگار مخلص انسان کو اسی طرح بھلا بدلہ اور نیک جزا دیتے ہیں۔ ہاں جھٹلانے والوں کی تو آج بڑی خرابی ہے “۔
ان جھٹلانے والوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ ” اچھا دنیا میں تو تم کچھ کھا پی لو، برت برتا لو، فائدے اٹھا لو، عنقریب یہ نعمتیں بھی فنا ہو جائیں گی اور تم بھی موت کے گھاٹ اترو گے۔ پھر تمہارا نتیجہ جہنم ہی ہے “۔ جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔
” تمہاری بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں کی سزا ہمارے پاس تیار ہے کوئی مجرم ہماری نگاہ سے باہر نہیں، قیامت کو، ہمارے نبی کو، ہماری وحی کو، نہ ماننے والا، اسے جھوٹا جاننے والا، قیامت کے دن سخت نقصان میں اور پورے خسارے میں ہو گا۔ اسی کی سخت خرابی ہے “۔
جیسے اور جگہ ارشاد ہے «نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ»[31-لقمان:24] ” دنیا میں ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ پہنچا دیں گے پھر تو ہم انہیں سخت عذاب کی طرف بے بس کردیں گے “۔
اور جگہ فرمان ہے «قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ»[10-یونس:69] یعنی ” اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دنیا میں یونہی سا فائدہ اٹھا لیں پھر ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے، ہم انہیں ان کے کفر کی سزا میں سخت تر عذاب چکھائیں گے “۔
پھر فرمایا کہ ” ان نادان منکروں کو جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے سامنے جھک تو لو، جماعت کے ساتھ نماز تو ادا کر لو تو ان سے یہ بھی نہیں ہو سکتا، اس سے بھی جی چراتے ہیں بلکہ اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور تکبر کے ساتھ انکار کر دیتے ہیں، ان کے لیے جو جھٹلانے میں عمریں گزار دیتے ہیں قیامت کے دن بڑی مصیبت ہو گی “۔
پھر فرمایا ” جب یہ لوگ اس پاک کلام پر بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر کس کلام کو مانیں گے؟۔
جیسے اور جگہ ہے «فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ»[45-الجاثية:6] یعنی ” اللہ تعالیٰ پر اور اس کی آیتوں پر جب یہ ایمان نہ لائے تو اب کس بات پر ایمان لائیں گے؟ “، ابن ابی حاتم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس سورت کی اس آیت کو پڑھے اسے اس کے جواب میں «آمَنْت بِاَللَّهِ وَبِمَا أَنْزَلَ» کہنا چاہیئے۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان لایا“۔ [سنن ابوداود:887،قال الشيخ الألباني:ضعیف] یہ حدیث سورۃ القیامہ کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے۔
سورۃ والمرسلات کی تفسیر ختم ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتیسویں پارے کی تفسیر بھی پوری ہوئی۔ یہ محض اسی کا فضل و کرم اور لطف و رحم ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»