اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے، خواہ ملکیت میں لا کر، خواہ شبہ سے وہ عورت بیٹے پر حرام ہے، ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے پر حرام بتاتے ہیں، حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ کے اس واقعہ سے بھی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدیج حمصی رحمہ اللہ نے جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ تھے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک لونڈی خریدی جو گورے رنگ کی اور خوبصورت تھی اسے برہنہ ان کے پاس بھیج دیا ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے اشارہ کر کے کہنے لگے اچھا نفع تھا اگر یہ ملبوس ہوتی پھر کہنے لگے اسے سیدنا یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ پھر کہا نہیں نہیں ٹھہرو ربیعہ بن عمرو جرشی رحمہ اللہ کو میرے پاس بلا لاؤ یہ بڑے فقیہ تھے جب آئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے اس عورت کے یہ اعضاء مخصوص دیکھے ہیں، یہ برہنہ تھی۔ اب میں اسے اپنے لڑکے یزید کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو کیا اس کے لیے یہ حلال ہے؟ ربیعہ نے فرمایا امیر المؤمنین ایسا نہ کیجئے یہ اس کے قابل نہیں رہی فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو اچھا جاؤ سیدنا عبداللہ بن مسعدہ فزاری رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ وہ آئے وہ تو گندم گوں رنگ کے تھے اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس لونڈی کو میں تمہیں دیتا ہوں تاکہ تمہاری اولاد سفید رنگ پیدا ہو یہ سیدنا عبداللہ بن مسعدہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا تھا آپ نے انہیں پالا پرورش کیا پھر اللہ تعالیٰ کے نام سے آزاد کر دیا پھر یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:142/8]