بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے۔ بعض نے توقف کیا ہے کہ «وَالْمُرْسَلَاتِ» سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں، ہاں «والْعَاصِفَاتِ» میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں، بعض «عاصفات» میں یہ فرماتے ہیں اور «نَّاشِرَاتِ» میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے، یہ بھی مروی ہے کہ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بارش ہے، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ «مُُرْسَلَاتِ» سے مراد ہوائیں ہے۔
جیسے اور جگہ فرمان باری «وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ»[15-الحجر:22] یعنی ” ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں “۔
اور جگہ ہے «وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ»[30-الروم:46] الخ ” اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے “۔
«عَاصِفَاتِ» سے بھی مراد ہوائیں ہیں، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں۔ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں۔
«فَارِقَاتِ» اور «مُلْقِيَاتِ» سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل، حلال و حرام میں، ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ لوگوں کے عذر ختم ہو جائیں اور منکرین کو تنبیہ ہو جائے۔
ان قسموں کے بعد فرمان ہے کہ ” جس قیامت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئیے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے، اس دن ستاروں کا نور اور ان کی چمک دمک ماند پڑ جائے گی“۔
جیسے فرمایا «وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ»[81-التكوير:2] اور جگہ فرمايا «وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ»[82-الإنفطار:2] ” ستارے بے نور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا “۔
جیسے اور جگہ ہے «وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا»[20-طه:105] اور فرمایا «وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا»[18-الكهف:47] ، یعنی ” پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا “۔ جیسے اور جگہ ہے «يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ»[5-المائدة:109] ” اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا “۔
جیسے اور جگہ ہے «وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ»[39-الزمر:69] ” زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے، نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لیے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے “۔
جیسے فرمایا «فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ»[14-إبراھیم:47] ” یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا، نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے “۔
اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے فرمایا: ” میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی کریم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لیے سخت خرابی ہے “۔
ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔ [سنن ترمذي:3164،قال الشيخ الألباني:ضعیف]