تفسير ابن كثير



عالم نزع سے پہلے توبہ؟ ٭٭

مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کر لیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے کے بعد عالم نزع سے پہلے ہو، مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں جو بھی قصداً یا غلطی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ جاہل ہے جب تک کہ اس سے باز نہ آ جائے۔ ؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:89/8] ‏‏‏‏

ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرے وہ جہالت ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:89/8] ‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع سے اس طرح کی روایت کرتے ہیں عطاء رحمہ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

توبہ جلدی کر لینے کی تفسیر میں منقول ہے کہ ملک الموت کو دیکھ لینے سے پہلے، عالم سکرات کے قریب مراد ہے، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہیئے، غر غرے کے وقت سے پہلے کی توبہ قبول ہے، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ساری دنیا قریب ہی ہے، اس کے متعلق حدیثیں سنئیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو، [سنن ترمذي:3537،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

جو بھی مومن بندہ اپنی موت سے مہینہ بھر پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد بھی بلکہ موت سے ایک دن پہلے تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو مہینہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ہفتہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ایک دن پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے، یہ سن کر ایوب رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی تو آپ نے فرمایا: وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [طیالسی:2284:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ چار صحابی رضی اللہ عنہم جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی توبہ کر لے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، دوسرے نے پوچھا کیا سچ مچ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو دوسرے نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر آدھا دن پہلے بھی توبہ کرلے تو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے، تیسرے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟ کہا ہاں میں نے خود سنا ہے، کہا میں نے سنا ہے کہ اگر ایک پہر پہلے توبہ نصیب ہو جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہے، چوتھے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں، اس نے کہا میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لیے بھی کھلے رہتے ہیں، [مسند احمد:3/:425:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن مردویہ میں مروی ہے کہ جب تک جان نکلتے ہوئے گلے سے نکلنے والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے، [مسند بزار:3243:ضعیف] ‏‏‏‏

کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے، ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم کہ ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی میں اس کے دل سے نہ نکلوں گا، اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا، [:تفسیر ابن جریر الطبری:8858] ‏‏‏‏

ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے قریب قریب مروی ہے۔ [مسند احمد:3/29:حسن] ‏‏‏‏

پس ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بندہ زندہ ہے اور اسے اپنی حیات کی امید ہے تب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے، توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس پر رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے، ہاں جب زندگی سے مایوس ہو جائے فرشتوں کو دیکھ لے اور روح بدن سے نکل کر حلق تک پہنچ جائے سینے میں گھٹن لگے حلق میں اٹکے سانسوں سے غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسی لیے اس کے بعد فرمایا کہ مرتے دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے اور موت دیکھ کر کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی، جیسے اور جگہ ہے آیت «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ» * «فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ» [40-غافر:84-85] ‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ ہمارے عذابوں کا معائنہ کر لینے کے بعد ایمان کا اقرار کرنا کوئی نفع نہیں دیتا اور جگہ ہے «يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا» [6-الأنعام:158] ‏‏‏‏ الخ مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق سورج کو مغرب کی طرف سے چڑھتے ہوئے دیکھ لے گی اس وقت جو ایمان لائے یا نیک عمل کرے اسے نہ اس کا عمل نفع دے گا، نہ اس کا ایمان۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر و شرک پر مرنے والے کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا چاہے زمین بھر کر سونا دینا چاہیئے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یہ آیت اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندیکی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑ جائے پوچھا گیا پردہ پڑنے سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا۔ [مسند احمد:5/174:ضعیف] ‏‏‏‏

ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.