تفسير ابن كثير



سیاہ کار عورت اور اس کی سزا ٭٭

ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر دے، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب تک سورۃ النور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لیے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بیشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا، عکرمہ، سعید بن جبیر، حسن، عطاء خرسانی ٫ ابوصالح، قتادہ، زید بن اسلم اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا:مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالیٰ نے سیاہ کار عورتوں کے لیے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی۔‏‏‏‏ [صحیح مسلم:1690] ‏‏‏‏ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں، [سنن ترمذي:1434،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اسی طرح ابوداؤد میں بھی۔

ابن مردویہ کی غریب حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے۔ [بیہقی:8/223:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث غریب ہے،

طبرانی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کا حکم نہیں رہا۔ [بیہقی:6/162:ضعیف] ‏‏‏‏

امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے، پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

پھر فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر، [تفسیر ابن جریر الطبری:8/85] ‏‏‏‏ یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا۔

عکرمہ، عطاء، حسن، عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:82/8] ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو، ہاں اگر یہ دونوں باز آ جائیں اپنی بدکاری سے توبہ کر لیں اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب ان کے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ، اس لیے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، [صحیح بخاری:6839] ‏‏‏‏ یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.