مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ «ویل» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گا اور «صعود» جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا ۔ [سنن ترمذي:3164،قال الشيخ الألباني:ضعیف] یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ «صعود» جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہو جائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہو جائے گا اسی طرح پاؤں بھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹتا جائے گا۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو۔ امام جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ” ہم نے اسے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لیے قریب کر دیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے “، اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کر دیا جائے، یہ برباد کر دیا جائے کتنا بدکلام، بری سوچ، کتنی بے حیائی سے جھوٹ بات گھڑلی، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر، منہ بگاڑ کر، حق سے ہٹ کر، بھلائی سے منہ موڑ کر، اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کر لیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا، قریش کا سردار تھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ”ایک مرتبہ یہ ولید پلید سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں۔ جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا، لوگو! تعجب کی بات ہے محمد جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے، نہ جادو کا منتر ہے، نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ! وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں، قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لئے اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہو گیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا۔
ابوجہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لیے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کر لیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں، اس نے کہا واہ! کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں۔ ابوجہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابوبکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لیے کہ ان سے کچھ حاصل و صول ہو، ولید کہنے لگا اوہو! میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابوبکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی «ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا»[74-المدثر:11] سے «لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ»[74-المدثر:28] تک۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:35420:ضعیف]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے، اس میں چمک ہے، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقینًا جادو۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔
ابن جریر میں ہے کہ ولید حضور علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑ گیا تھا اور پورا اثر ہو چکا تھا۔ جب ابوجہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہو جائے اسے بھڑکانے کے لیے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لیے مال جمع کرنا چاہتی ہے پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ آپ کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلوم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں؟ ابوجہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ محمد سے مال حاصل کرنے کی غرض سے آپ اسی کے ہو گئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں۔
اس نے کہا: بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے، نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی گرامی شاعر ہوں، کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش، بلندی اور جذب ہے اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں؟
ابوجہل نے کہا سنو! جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کے خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے، اس نے کہا: اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہہ دوں گا چنانچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے اس پر «ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا» سے «عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ» [المدثر:11۔30] تک کی آیتیں اتریں۔
سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد کی نسبت کیا کہیں؟ کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بیک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہو جائے تو اب کسی نے شاعر کہا، کسی نے جادوگر کہا، کسی نے کاہن اور نجومی کہا، کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے، قرآن کریم میں اور جگہ ہے «اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا»[17-الإسراء:48] یعنی ” ذرا دیکھ تو سہی تیری کیسی کیسی مثالیں گھڑتے ہیں لیکن بہک بہک کر رہ جاتے ہیں اور کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے “۔