تفسير ابن كثير



نیکی کر دریا میں ڈال ٭٭

پھر فرماتا ہے ” عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو “۔ ابن مسعود کی قرأت میں «وَلَا تَمْنُنْ أَنْ تَسْتَكْثِرَ» ہے۔

یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ ” اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” طلب خیر میں غفلت نہ برتو “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو “، یہ چار قول ہوئے، لیکن اول اولیٰ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

پھر فرماتا ہے ” ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضا مندی کی خاطر صبر و ضبط کر، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ “۔

«نَّاقُورِ» سے مراد صور ہے، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کیسے راحت سے رہوں؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:یا رسول اللہ! پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے؟ فرمایا: کہو «حَسْبنَا اللَّه وَنِعْمَ الْوَكِيل عَلَى اللَّه تَوَكَّلْنَا» [مسند احمد:1/326:صحیح] ‏‏‏‏

پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ ” وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا “۔ جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ «يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ» [54-القمر:8] ‏‏‏‏ ” یہ آج کا دن تو بے حد گراں اور سخت مشکل کا دن ہے “۔

زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرہ کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.