ابن جریر میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے کے لیے وہ بھی آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یہ نماز فرض ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمانے لگے کہ لوگو! ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے۔
ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے، آٹھ مہینے اسی طرح گزر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضا مندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا۔
یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورۃ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گزر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورۃ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا۔ ابواسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے۔